جو میں سوچتا ہوں اپنی دانست میں ہمیشہ اپنے وطن کی بھلائی کے لئے سوچتا ہوں۔ میرے خیالات اگرچہ کئی اعتبار سے ناقص یا ناقابلِ عمل ہوسکتے ہیں۔ ان خیالات کی خامیاں مگر اسی صورت سامنے آسکتی ہیں جب میں دیانت داری سے انہیں سادہ الفاظ میں تفصیل سے بیان کروں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ اس کالم جیسی تحریریں لکھتے ہوئے میں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرنے سے گریز کرتا ہوں۔ کچھ علاقے ہیں جو No Go Areas ہیں۔ ”جس کو ہو دین ودل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں“ والا سوال کھڑا کردیتے ہیں۔
میرے لئے ”ممنوعہ“ نظر آنے والے علاقے مگر ہماری ریاست کے نمائندے ہیں۔ یہ علاقے ”اداروں“ نے بہت سوچ سمجھ کر تشکیل دئیے ہیں۔ انہیں ”قومی مفاد“ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ایک فرد کو شاید ان پر سوالات اٹھانے کا حق حاصل نہیں کیونکہ وہ ”اجتماعی سوچ“ کے نمائندہ سمجھے جاتے ہیں۔ اس سوچ پر سوال اٹھانا آپ کی وطن سے محبت کو بھی مشکوک بناسکتا ہے۔ ریاست کو آپ کے خلاف اقدامات اٹھانے پر مجبور کرسکتا ہے۔
ریاست کی ادارتی سوچ کی بدولت بنے ”علاقوں“ کا احترام لہٰذا آپ کے لئے ضروری ہے وگرنہ ”ٹکور“ کی ضرورت محسوس ہوگی۔ زیادہ سوچنا ویسے بھی صحت کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔ بچ بچاکر لکھو۔ رزق کماﺅ اور زندگی سے لطف اندوز ہو۔ اگرچہ عمر کے اس حصے میں ”ہاتھ میں جنبش“ باقی نہیں رہتی۔ صرف آنکھوں میں تھوڑا دم موجود ہوتا ہے۔
ریاست کی تشکیل دی ہوئی سوچ کے علاوہ کچھ خیالات ونظریات ”غیر ریاستی عناصر“ نے بھی تشکیل دے رکھے ہیں۔ ان سے اختلاف کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی۔ بہت احتیاط سے لکھا ہوا فقرہ بھی ”غیر ریاستی عناصر“ کو اشتعال دلاسکتا ہے اور ان عناصر نے اُمت مسلمہ کی واحد ایٹمی ریاست کو ”تھلے“ لگانے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے۔ ریاست اور غیر ریاستی عناصر کے خوف سے لہٰذا اپنے خیالات کو کھل کر بیان کرنے کی سکت کم از کم مجھ میں موجود نہیں رہی۔ ڈھٹائی سے مگر لکھے چلے جارہا ہوں کیونکہ اس کے علاوہ معاش کا کوئی اور ذریعہ میری دسترس میں نہیں۔
سچ لکھنے سے اجتناب کا اعتراف کرنے کے بعد مگر جان کی امان پاتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنانا قطعی ناانصافی ہے۔ جس قانون نے فسادِ خلق کو بھڑکایا وہ پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندوں نے متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے کئی اجلاس کے بعد منظور کیا تھا۔ ریکارڈ پر ایسی کوئی چیز ہرگز موجود نہیں جو یہ ثابت کرے کہ فلاں موقع پر فلاں جماعت کے فلاں نمائندے نے مذکورہ قانون کے چند الفاظ تبدیل کرنے پر اعتراض کیا تھا۔
یہ قانون جب سینٹ میں پیش ہوا تو جمعیت العلمائے اسلام کے حافظ حمد اللہ نے اس پر اعتراض ضرور کیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے ان کی تائید کی۔ قانون مگر پاس ہوگیا اور اس کے بعد قومی اسمبلی سے بھی۔ اس قانون کو تشکیل دینے میں بقول مولانا فضل الرحمن ہماری پارلیمان نے ”اجتماعی خطا“ کا ارتکاب کیا تھا۔ خطا کی نشان دہی ہوگئی تو انتہائی سرعت کے ساتھ اس کا ازالہ بھی ہوگیا۔ حکومت ہی نہیں پارلیمان کی ”اجتماعی خطا“ کا فقط زاہد حامد کو ذمہ دار ٹھہرا کر قربان کردینا بہت بڑی ناانصافی ہے۔
اقتدار کے کھیل میں حکومتیں بچانے کے لئے وزراءکی قربانی ایک عمومی واقعہ ہے۔ زاہد حامد کو جس خطا کا ذمہ دار بناکر قربان کیا گیا اس کے خلاف مگر لوگوں کے جذبات بھڑکادئیے گئے ہیں۔ وزارت سے فراغت کے بعد بھی زاہد حامد کو ہمہ وقت خوف کی فضاءمیں سانس لینا ہوگا۔ دُکھ کی بات یہ بھی ہے کہ بیچارے وزیر کو اس کے سیاسی مخالفین نے نہیں ”اپنوں“ ہی نے اس مقام پر پہنچایا ہے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بھرے مجمع میں اپنے ”قائد محترم“ (نواز شریف) سے بلند آواز میں مطالبہ کیا کہ ”کابینہ کے اس وزیر“ کو فارغ کیا جائے جس نے مبینہ طورپر ایک قانون کو اس انداز میں بدلا۔ کئی لوگوں کے جذبات مشتعل ہوگئے۔ ”اپنے گھر“ ہی سے بطور مجرم نشان دہی کے بعد زاہد حامد کا تحفظ ناممکن ہوگیا تھا۔
شاہد خاقان عباسی اور ان کی کابینہ کو زاہد حامد کی قربانی کے بعد مگر ”ستے خیراں“ کی کیفیت ہرگز محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ گزشتہ تین دنوں میں جو کچھ ہوا اس نے ریاستی امور کی پیچیدگیوں سے ناواقف شخص کو بھی وضاحت کے ساتھ سمجھادیا کہ آئینی اعتبار سے پاکستان کا ”چیف ایگزیکٹو“ کہلاتے وزیر اعظم کے پلے کچھ نہیں۔
شہریوں کی جان ومال کا تحفظ اور ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی یہ ذمہ داری ریاستی قوت کے موثر استعمال کے ذریعے ہی ادا کرسکتے تھے اور بات عیاں ہوگئی کہ ریاستی قوت پر ”چیف ایگزیکٹو“ کہلاتے شخص کا ہرگز کوئی اختیار نہیں ہے۔ لمحہ یہ بہت کڑا مگر تاریخی ہے۔
مجھے گماں ہے کہ شاہد خاقان عباسی ایک خوددار شخص ہیں۔ وقت نے مگر بدقسمتی سے انہیں اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں انہیں اپنی خودداری کو ثابت کرنا ہوگا۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ فی الفور پاکستان مسلم لیگ (نون) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلوائیں۔ نواز شریف صاحب اس اجلاس کے لئے خصوصی طورپر مدعوکئے جائیں۔
مجوزہ اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کو انتہائی دیانت داری کے ساتھ ٹھوس واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ریاستی قوت کے استعمال کے ضمن میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ اس اعتراف کے بعد وہ استعفیٰ کا اعلان کریں اور یہ فیصلہ اپنی پارلیمانی پارٹی پر چھوڑ دیں کہ اسے ایک اور وزیر اعظم کا انتخاب کرنا ہے یا قبل از وقت انتخابات کی تیاری۔
میرے تجویز کردہ اقدام کے برعکس عباسی حکومت کو Business as Usual کی طرح موجودہ اسمبلی کی بقیہ آئینی مدت تک چلانا ناممکن ہے۔ وقت کا جبر ہے کہ یہ حکومت مستعفی ہو۔ کوئی نئی صورت بنے۔ لوگوں کے دلوں میں اُبلتے اور بھڑکائے جذبات کی نکاسی کے انتخابی مہم جیسے Regulated راستے بنائے جائیں۔ اس سے قبل ملا وقفہ شاید حالات کو ٹھنڈا کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ جو بھی ہے وقت کا ظالمانہ زیاں ہوگا۔