امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈٹرمپ کی حیران کن جیت اور اس سے قبل برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کے سوال پر ہوئے ریفرنڈم کے نتائج نے سماجی ماہرین کی ایک کثیر تعداد کو ووٹروں کے رویوں پر ازسرنو تحقیق کرنے پر مجبور کیا۔ یہ حقیقت تو کئی برس پہلے دریافت کرلی گئی تھی کہ فیس بک اور ٹویٹر نے ہمیں Post-Truth دور میں دھکیل دیا ہے۔
اس کالم میں Post-Truth عہد کے مختلف پہلوئوں کا اکثر ذکر ہوا ہے۔ مختصراََ یہ اس تصور کا اثبات ہے کہ سیاست میں حقائق اہم نہیں ہوتے لوگوں کے ذہنوں میں پہلے سے موجود تعصبات ہوتے ہیں۔ جو سیاست دان کسی معاشرے کی اکثریت کے ذہنوں میں موجود تصورات کو جان کر انہیں جذباتی انداز میں کھیلنے کا ڈھنگ سیکھ لے وہ جمہوری نظام میں ووٹ کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچ جاتا ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد عہدِ قدیم کے سلطانوں جیسے اختیارات کو محض اپنی ذات کے لئے چھین لینا اس کی عادت اور مجبوری بن جاتی ہیں۔ امریکہ کا ٹرمپ، بھارت کا مودی اور ترکی کا اردوان، Post-Truth سیاست کی بھرپور علامتیں ہیں۔ فی الوقت مگر ہمیںوطنِ عزیز کے حقائق تک محدود رہنا ہوگا۔
معروضی حقائق کے مقابلے میں اگر لوگوں کے ذہنوں میں پہلے سے موجود تصورات کی اہمیت کو تسلیم کرلیا جائے تو تھوڑی تحقیق کے بعد دریافت یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی عمل میں دلچسپی لینے والوں کی اکثریت یہ طے کر بیٹھی ہے کہ ’’کوئی تو ہے ‘‘جو 2018 کے انتخابات کے ذریعے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو اقتدار ’’دلوانا‘‘ چاہ رہا ہے۔
میں ذاتی طور پر اس تصور کا حامی نہیں رہا۔ ہمیشہ یاد رکھا کہ خان صاحب 1990 کی دہائی کے وسط سے سیاسی میدان میں مستقل بائولنگ کرواتے چلے آرہے ہیں۔ ان کی شخصیت نے طرز کہن والی سیاست کو جنونی انداز میں للکارا اور بے تحاشہ افراد خاص کر نوجوانوں کو اپنی ضداور استقامت سے شدید متاثر کیا۔ ان کی لڑائی ’’باریاں لینے‘‘ والوں کے خلاف تھی۔ آصف علی زرداری اور ان کی جماعت 2013 میں فارغ ہوگئے۔ نواز شریف کو خان صاحب نے پچ پر ٹکنے نہیں دیا۔ 2018 میں لہذا عمران خان اور ان کی جماعت کو ’’ایک چانس‘‘ دینے والی خواہش اُبھررہی ہے۔
میرے اندر ہمیشہ موجود مگر ان دنوں تقریباََ ریٹائر ہوئے رپورٹر کے لئے لیکن محض اس تصور پر اکتفا کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ تحریک انصاف میں گزشتہ چند ہفتوں میں شامل ہونے والے افراد میں سے کم از کم 15 کے بارے میں مجھے ٹھوس حوالوں سے خبر ہے کہ وہ کیسے اور کس کے توسط سے تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ ان کی شمولیت ہرگز اچانک اور فطری انداز میں نہیں ہوئی۔
Electables کی تحریک انصاف کی جانب ایک ہجوم کی شکل میں ہجرت کا حقیقی محرک یہ تصور ہے کہ ’’کوئی تو ہے‘‘ جس نے نواز شریف کو اقتدار سے نکالا ہے۔ نون کے لاحقے والی جماعت مگر ان کی تاحیات نااہلی کے بعد بھی ان سے لاتعلق ہونے کی جرأت نہ دکھاپائی۔ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے سوال نے بالآخر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والے نعرے کی صورت اختیار کرکے مسرت نذیر کے ایک سدابہار گیت میں باجرہ کوٹ کر چھت پر ڈالنے والی مٹیار کے لئے ایک ’’نواں پواڑہ‘‘ پیدا کردیا ہے۔ اس باجرے کو بھی لیکن ’’آن کے کاگ تے (ہر صورت) کھاجان گے‘‘۔
Post-Truth دور میں لوگوں کے ذہنوں میں موجود تصورات کی اہمیت کی جانب لوٹیں تو تھوڑے غور کے بعد ہمیں یہ بات بھی بآسانی دریافت ہوجائے گی کہ اگر Electables کی ہجوم کی صورت تحریک انصاف کی جانب ہجرت ’’کوئی تو ہے‘‘ کا کرشمہ مان لی جائے تو متوقع انتخابات کا کسی نہ کسی جواز کی بنیاد پر التوا یہ پیغام بھی دے گا کہ ’’کوئی تو ہے‘‘ کو ابھی تک عمران خان اور تحریک انصاف کا انتخابی مشق سے واضح اور صاف ستھرے انداز میں کامیاب ہوکر گزرنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ شاید تھوڑی اور آنچ کی ضرورت ہے۔
مذکورہ بالا تصور کی موجودگی کو اگر برحق تسلیم کرلیا جائے تو متوقع انتخابات کے کسی نہ کسی جواز کے تحت التواء کی حقیقی ذمہ داری فقط عمران خان اور تحریک انصا ف کے سرتھونپ دی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو 2018 کے انتخابا ت میں تاخیر کے اعلان کے بعد تحریک انصاف بہت تیزی سے 1978 والی تحریک استقلال کی صورت اختیار کرنا شروع ہوجائے گی۔ اصغر خان ذاتی حوالوں سے بہت دیانت دار اور کرشمہ ساز ہوتے ہوئے بھی انتخابات کے التوا کی وجہ سے آئے اس زوال کو سنبھال نہیںپائے تھے۔
وطنِ عزیز کی سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میری شدید خواہش ہے کہ عمران خان اور تحریک انصا ف میرے بیان کردہ Post-Truth منظر نامے پر ٹھنڈنے دل سے غور کریں۔ پوری دیانت اور شدت کے ساتھ اس مطالبے پر اصرار کرتے نظر آئیں کہ Rain or Shine نئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تشکیل کے لئے انتخابات آئینی طورپر طے شدہ تاریخ یعنی 25 جولائی 2018 کے روز ہر صورت منعقد کروائے جائیں۔
انتخابات کو بروقت منعقد کروانے کے مطالبے پر خان صاحب کی جانب سے پرزور اصرار تحریک انصاف کو تاثر کے محاذ پر ہوئے اس نقصان سے توجہ ہٹانے کے لئے بھی ازحد ضروری ہے جو اس کی جانب سے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کے حوالے سے رچائے تماشے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نقصان کے ازالے کے لئے محترمہ ریہام خان کی متوقع کتاب پر توجہ مبذول کرنے کی کوشش ہر حوالے سے بچگانہ تھی۔
کسی زمانے میں ’’مینڈاسائیں‘‘ نامی ایک کتاب بھی آئی تھی۔ غلام مصطفیٰ کھر اس کے باوجود ہماری سیاست کے اہم کردار رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو اکھاڑنے کے لئے غلام مصطفیٰ جتوئی کو کوٹ ادو سے قومی اسمبلی میں لانے کا میدان انہوں نے فراہم کیا تھا۔ محترمہ کو 1993 میں دوبارہ وزیر اعظم کے دفتر پہنچانے میں ان کا کردار بھی اہم تھا۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ بیک ڈور روابط کا شاخسانہ۔ اسد درانی کے ساتھ استوار ہوئے رشتے۔ وغیرہ وغیرہ۔
غلام مصطفیٰ کھر اپنے خلاف لکھی کتاب کی وجہ سے نہیں بلکہ جاگیردارانہ رعونت اور کاہلی کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچے ہیں۔ ان دنوں تحریک انصاف کی جانب سے لگائے ’’آکسیجن ٹینٹ‘‘ میں لیٹے انتخابی سیاست میں نئی زندگی کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔
عمران خان کی سیاست کو اصل نقصان بھی کسی کتاب کی وجہ سے نہیں اس تاثر کی بدولت ہوگا کہ ’’کوئی توہے‘‘ جو انہیں 2018 کے انتخابات کے ذریعے اقتدار میں لانا چاہ رہا ہے اور اگر ایسا ممکن نظر نہیں آیا تو یہ انتخابات کسی نہ کسی بہانے ملتوی کردئیے جائیں گے۔