1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. ممولے کو شہباز سے لڑانے کی تیاری

ممولے کو شہباز سے لڑانے کی تیاری

جو نظر آتی ہیں فقط ان باتوں پر جائیں تو تحریک انصاف نے مخلوط حکومت کے لئے قابل برداشت سمجھی مجبوریوں کے ہوتے ہوئے بھی خیبرپختونخواہ میں Deliver کیا ہے۔ شاید ان کی بہترکارکردگی کی بدولت ریاستِ پاکستان خیبرپختون خواہ کا رقبہ اور آبادی کئی دہائیوں سے ”آزاد“ قبائل اور ان کے علاقوں کے اس صوبے میں انضمام کے ذریعے بڑھانے پر مجبور ہوئی۔ 2013 سے 2018 کے درمیانی برسوں میں متعارف ہوئی ”گڈگورننس“ نے حالیہ انتخابات میں پنجاب کے جنوبی علاقوں کو بے حد متاثر کیا۔ جلو ے اس کے شہر کراچی میں بھی سراہے گئے۔ خطہ پوٹھوہار بھی اس کی تائید پر مجبور ہوا۔

25 جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کو وفاق کے علاوہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے-پنجاب- میں حکومت بنانا ہے۔ عمران خان صاحب وفاقی حکومت کے قائد ہوں گے لیکن تخت لہور پر بٹھانے کے لئے میرا یہ کالم لکھنے تک کسی شخص کا نام طے نہیں ہوا تھا۔

برطانوی سیاست کے سدھائے چودھری سرور کو البتہ پنجاب کا گورنر نامزد کردیا گیا ہے۔ آئینی اعتبار سے یہ عہدہ نمائشی ہے۔ چودھری صاحب کو مگر گماں ہے کہ وہ سامراجی دور کے وائسرائے کی طرح عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے اراکین پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے ”نیا پنجاب“ بنائیں گے۔

سمندر پار سے آئے آقاﺅں نے 1846 میں بھی سکھوں کو شکست دینے کے بعد اس صوبے میں ”گڈگورننس“ متعارف کروائی تھی۔ اس گورننس کو پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلانا پڑا۔ برطانوی سرکار کے بخشے ”امن“ نے جنرل نکلسن کو وہ لشکر تیار کرنے میں بے پناہ مدد دی جس نے دلی کو باغیوں سے آزاد کروایا تھا۔ چودھری صاحب کا بنایا ”پنجاب“ کس خطے کی آزادی کا راستہ بنائے گا یہ دیکھنا ہوگا۔ یہ بات اگرچہ اب تک طے نہیں ہوپائی ہے کہ چودھری صاحب کے Delivery Tools کیا ہوں گے۔

انگریز کے پاس DC تھا۔ اس کے ذریعے بندوبستِ اراضی کی تکمیل پولیس کا نظام، پینل کوڈ کی تشکیل اور عدالتیں بنادینے کے بعد ہمارے آقاﺅں نے بلدیاتی نظام متعارف کروایا تھا۔ اس کے لئے منتخب نمائندوں کو ”موری ممبر“ کہا جاتا تھا۔ محلوں کو صاف رکھنے کے لئے نالیوں کی تعمیر وغیرہ پر نامور افراد۔ اس کے علاوہ ان نمائندوں کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ چند دہائیاں گزرجانے کے بعد صوبائی اسمبلی کا قیام عمل میں آیا تو دلی کے نواحی گڑگاﺅں سے رحیم یار خان اور اٹک تک پھیلے صوبے کا وزیر اعلیٰ پرئمیر کہلایا۔ DCوغیرہ کو بدلنے کا مگر اسے بھی اختیارحاصل نہیں تھا۔ سرکاری افسران گورنر ہی کو جوابدہ رہے۔

اس ”گڈگورننس“ کے ہوتے ہوئے بھی لیکن جلیانوالہ باغ ہوا تھا۔ پنجاب میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ ملا جس کا نتیجہ ہمیں 1947 کے خونی فسادات کی صورت دیکھنے کو ملا تھا۔

انگریز کی متعارف کردہ گورننس کو آج کے دور میں Top Down ماڈل کہا جاتا ہے۔ 2008 سے 2018 تک شہباز شریف نے اس ماڈل کو فالو کیا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ گورنر کے بجائے اختیارات مبینہ طورپر پنجاب اسمبلی کو ”جوابدہ“ وزیر اعلیٰ کو منتقل ہوگئے۔ شہباز صاحب نے انگریزی زبان کے Hands On انداز میں ”گڈگورننس“ چلائی۔ ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھایا۔ میٹروبسیں چلائیں۔ انڈرپاسز بنے۔ نیب کی مہربانیوں سے دریافت مگر اب یہ ہورہا ہے کہ مذکورہ منصوبوں کے ذریعے احدچیمہ جیسے افسروں کو کرپشن کی جانب راغب کیا گیا۔ بہت لگن سے نیب اب یہ جاننا چاہ رہا ہے کہ ”حصہ“ بڑے صاحب تک بھی جاتا تھا یا نہیں۔

نیب فی الوقت کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ کراچی اور جنوبی پنجاب کے رائے دہندگان نے البتہ 25 جولائی 2018 کے دن تحریک انصاف کی جانب سے کھڑے امیدواروں کو ووٹ دے کر نظربظاہر شہباز صاحب کا متعارف کروایا ماڈل مسترد کردیا ہے۔ پنجاب کوشاید وہ ماڈل فالو کرنا ہوگا جو عمران خان صاحب کی نگہبانی میں پرویز خٹک نے صوبہ خیبرپختونخواہ میں متعارف کروایا تھا۔ پنجاب کا پرویز خٹک کون ہوگا؟ یہ مگر طے نہیں ہوپایا ہے۔

انتخابات سے قبل یہ بات طے ہوچکی تھی کہ شاہ محمود قریشی پنجاب کے وزیر اعلی ہوں گے۔ وہ مگر صوبائی اسمبلی کے لئے منتخب نہ ہوپائے۔ ان کی ہارنے علیم خان کے امکانات روشن بنادئیے۔ نیب کو مگر ان سے بھی چند سوالات کا جواب حاصل کرنا ہے۔ جہلم کے فواد چودھری شہباز صاحب کا متحرک متبادل ہوسکتے تھے۔ انہیں خان صاحب نے لیکن وفاق کی خدمت کے لئے اسلام آباد رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد نام چلا چکوال کے راجہ یاسر سرفراز کا۔ ان کے خلاف مگر تحریک انصاف کی صفوں میں سے اینکر خواتین وحضرات کو Whatsapp کے ذریعے منفی خبریں ملنا شروع ہوگئیں۔ اس کے بعد نام آیاچیچہ وطنی کے رائے مرتضیٰ کا۔ وہ قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اسمبلی کے لئے بھی منتخب ہوئے تھے۔ خان صاحب نے انہیں بھی اسلام آباد کے لئے وقف کردیا ہے۔

رائے مرتضیٰ، راجہ یاسر نواز اور فواد چودھری کے ساتھ برتے سلوک نے مجھ ایسے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید عمران خان صاحب جنوبی پنجاب سے لاہور کے لئے کوئی پرویز خٹک لانا چاہ رہے ہیں۔ دریشک اس ضمن میں نمایاں نظر آئے۔ دریشک کے حامیوں نے میڈیا میں لابنگ کی کوشش کی تو نگاہ میاں والی قریشیاں کے مخدوم ہاشم کی سمت مڑگئی۔ گومگو کے اس عالم میں دوست محمد مزاری کا نام بھی چلا۔ راجن پور کے میربلخ شیرمزاری کے پوتے جن کا کنبہ برسوں سے سیاست میں ہونے کے باوجود نیک نام رہا ہے۔ پیر کی شب مگر دوست محمد کو پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے لئے نامزد کردیا گیا ہے۔ لاہور کے لئے کوئی پرویز خٹک ابھی تک مل نہیں پایا ہے۔

تازہ ترین نام اس ضمن میں ڈاکٹر مراد کا لیا جارہا ہے۔ آبائی تعلق ان کا گجرات سے ہے مگر اب کئی برسوں سے ”لاہوری“ ہوچکے ہیں۔ سنا ہے ماڈل ٹاﺅن کو جسے شریف خاندان کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے 2013 سے اپنے سحر میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ کچھ دوستوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کی شریف خاندان کے ساتھ کوئی رشتے داری بھی ہے۔ اس حوالے سے شہباز شریف کے پنجابی زبان والے ”شریک“ ہوئے۔ خان صاحب کو قائل کیا جارہا ہے کہ وہ اس ممولے کو شہباز سے لڑانے کے لئے میدان میں اُتاردیں۔