مائیں جو کہانیاں ہمیں بچپن میں سنایا کرتی تھیں ان میں اکثر ایسے مقامات آتے تھے جہاں کردار بیک وقت ہنسنے یا رونے کی کیفیت سے گزرتے تھے۔
منگل کی سہ پہر سے میرا بھی کچھ ایسا ہی عالم ہے۔ نوجوانوں کی ایک تحریک اٹک کے پار سے اُٹھی تھی۔ گزشتہ اتوار کو اس نے میرے شہر لاہور کے تاریخی موچی دروازے میں ایک جلسہ کا اہتمام بھی کیا۔ اس جلسے کو بہت بھونڈے انداز میں روکنے کی کوشش ہوئی۔ اسے روکنے کے لئے کچھ ایسے ہتھکنڈے اختیار کئے گئے جنہوں نے ایوب خان کے لگائے نواب آف کالاباغ کے اندازِ حکمرانی کی یاد دلادی۔ حبیب جالب اس دور میں لاہور کی سڑکوں پر ’’ایسے دستورکو…‘‘والی نظم پڑھتا ہوا پولیس کے ہاتھوں اپنا گریبان چاک کروایا کرتا تھا۔
تختِ لہور پر ان دنوں جو ’’نواب‘‘ گزشتہ دس برس سے براجمان ہیں وہ اکثر جالب کی اس نظم کو دہراتے ہوئے ڈائس پر لگے مائیک کو ہاتھ کی حرارت سے زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ موصوف نے ’’علی بابا‘‘ کو اس کے ساتھیوں سمیت لاہور کی گلیوں میں گریبان سے پکڑکر گھسیٹنے کے وعدے بھی کئے تھے۔ لاہور کے اس جلسے میں جالب کی بیٹی بھی موجود تھی۔ اس جلسے کو روکنے میں ناکام ہوجانے کے بعد لیکن تخت لہور پر ان دنوں براجمان ہوئے ’’نواب‘‘ کراچی چلے گئے۔ اس شہر کے باسیوں کو بتانے کہ اگر کراچی والے انہیں ووٹ دے کر پاکستان کا وزیر اعظم بنادیں تو وہ ان کے شہر کو نیویارک بنادیں گے۔
کراچی میں تخت لہور کے ان دنوں نواب ہوئے کی آنیاں جانیاں ہمارے 24/7 چینل والوں نے لمحہ بہ لمحہ کو رکیں۔ خود کو آزاد وبے باک کہتے یہ چینل مگر اپنے دیکھنے والوں کو ہرگز یہ بتانے کی جرأت نہ دکھاپائے کہ کراچی کو نیویارک بنانے کا وعدہ کرنے والے کے اپنے شہر میں ایک تاریخی مقام پر کیا ہورہا ہے۔ اس ضمن میں مکمل خاموشی اختیارکی گئی۔ ٹی وی سکرینوں پر حق وصداقت کے علمبردار بنے دونمبریوں کو اس ضمن میں کوئی ندامت ہی محسوس نہ ہوئی۔
منگل کی سہ پہر پشاور کے کور کمانڈر کی جانب سے چند فقرے ادا ہوئے تو اندازہ ہوا کہ وہ تحریک جسے قطعاََ نظرانداز کیا گیا تھا اب زیربحث لائی جاسکتی ہے۔ رات نوبجے کے بعد سے ٹی وی ٹاک شوز کے نام پر رچائی نوٹنکیوں میں اس کے مختلف پہلوئوں کا ’’تجزیہ‘‘ شروع ہوگیا۔ یہ تجزیے‘‘ دیکھتے ہوئے مجھے مائوں کی سنائی داستانوں کے کرداروں کی طرح سمجھ ہی نہ آپائی کہ روئوں یا ہنسوں۔
بارہا اس کالم میں یہ دہراتے ہوئے اُکتاگیا ہوں کہ ٹیلی وژن کو کمیونی کیشن (جسے غالباََ اُردو میں ابلاغ کہا جاتا ہے) کی سائنس کو بہت تحقیق کے ذریعے سمجھنے والوں نے Idiot Box کہہ رکھا ہے۔ ہم اس ’’ڈبے‘‘ کی سکرین پربیٹھے مگر معاشرے کوتبدیل کرنے کی کوششوں میں مبتلا ہیں۔ ’’ذات دی کوڑھ کلی تے شہتیراںنوںجپھے‘‘۔ یہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ ممکن ہے۔ چھپکلی مگر وہ تاثر پیدا کرہی نہیںکر سکتی جو ’’کوڑھ کلی‘‘ کی صوت پیدا کرتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ٹی وی سکرینوں پر شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ’’نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز‘‘ کے نام پر سرخی پائوڈر لگاکر ’’تجزیہ‘‘ کرتے مجھ ایسے عقل کل بنے اینکر اپنی اوقات پہچان لیں۔ ہم محض Entertainer ہیں۔ نظریہ ساز نہیں۔ لوگوں کو اپنے جذبات کے اظہار کے لئے ہماری ضرورت نہیں رہی۔ ٹویٹر اور فیس بک آگئے ہیں۔ لوگ اپنے جذبات کے اظہار کے لئے خود کفیل ہوچکے ہیں۔ کسی اینکر کے محتاج نہیں رہے۔
ٹی وی کے ذریعے سیاسی پیغام کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کا چلن امریکہ سے شروع ہوا تھا۔ 1960 کے آغاز میں کنیڈی نے جو امریکی عوام کی اکثریت کی طرح پروٹسٹنٹ نہیں بلکہ کیتھولک تھا ٹی وی سکرین پر اپنی کرشماتی Presence کے ذریعے صدارتی انتخاب جیت لیا تھا۔ ٹی وی Presence کی حرکیات کو One Liners کے ذریعے مؤثر تر بنانے کا ہنر ہالی ووڈ فلموں کے ایک B Class ایکٹر ریگن نے دریافت کیا۔ 1980 کی پوری دہائی اس کے نام ہوئی۔ اس کے بعد آیا کلنٹن جس نے کنیڈی کی یادلادی۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ٹرمپ ٹی وی پر اپنے مضحکہ خیزبالوں، پیٹ کی ناف سے ٹانگوں کی طرف بھاگتی ٹائی، بلغم زدہ آواز، آنکھوں کے گرد سفید حلقوں اور اپنے ہاتھوں کی چھوٹی دِکھتی انگلیوں کو بچوں کی طرح دکھانے کی وجہ سے ہرگز کرشماتی نظر نہیں آتا۔ ٹویٹر کی اثرپذیری کو لیکن وہ جبلی طورپر سمجھ گیا۔ صبح اُٹھتے ہی Rapid Fire کے انداز میں اپنے نام سے حیران کن حد تک متعصب اور کئی حوالوں سے غیراخلاقی یاPolitically Incorrect الفاظ کے استعمال سے ٹویٹ لکھنا شروع ہوجاتا۔ اس کی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری نے لیکن ہیلری کلنٹن جیسی جہاں دیدہ اور تجربہ کارسیاست دان کو صدارتی انتخاب میں شکست دے دی۔
امریکہ اور برطانیہ کی پارلیمان ان دنوں بہت حیران ہوئی فیس بک کے بانی سے یہ جاننے کی کوشش کررہی ہیں کہ سمارٹ فونز کے ذریعے دُنیا کے تقریباََ ہر شخص کو میسر اس کی متعارف کردہ یہ App لوگوں کے ذہنوں کو Fake News کی بھرمار سے گمراہ کیسے کرتی ہے۔ وہ سمجھا ہی نہیں پارہا۔ اسے اپنی ہی ایجاد کی اثرپذیری کی سمجھ نہیں آرہی۔ معافی تلافی سے کام چلانا چاہ رہا ہے۔ جس تحریک کا ہمارے حق وصداقت کے علمبردار بنے نام تک نہیں لے سکتے تھے۔ فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے ہی بالآخر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کے بیشتر مطالبات کو ’’جائز‘‘ اور ’’مناسب‘‘ تسلیم کرنا پڑا۔ بہتر ہوتا کہ Ratings کے لئے کچھ بھی کرنے کو ہمہ وقت تیار ہمارے 24/7 چینلوں نے اس تحریک کو بھی مناسب وقت دے کر فقط صحافتی اندازہ میں اپنی سکرینوں پر زیربحث لایا ہوتا۔ یہ ہوجاتا تو شاید اس وقت میں مائوں کی سنائی داستانوں کے کرداروں کی طرح بیک وقت ہنسوں یا روئوں والی کیفیت میں مبتلا نہ ہوتا۔