1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. نیب کے سیف ہاؤسز

نیب کے سیف ہاؤسز

میں بھی کتنا بے وقوف ہوں۔ 5 جولائی 1977ء کو کئی برسوں سے ایک منحوس دن قرار دیتا رہا۔ وہ دن جب آئین معطل ہوا اور عوام کے منتخب نمائندوں کی جانب سے چلائی حکومت کا تصور ہمیشہ کے لئے ہمارے ذہنوں سے مٹانے کے عمل کا آغاز ہوا۔ اکتالیس برس گزرجانے کے بعد 2018ء کی 5 جولائی کی صبح اٹھاہوں تو احساس ہوا ہے کہ ہم اس دن کے بعد سے بتدریج متعارف ہوئے نظام میں جی رہے ہیں۔ اس نظام کو بدلنے کی کسی سیاستدان یا مفکر کو ضرورت ہی محسوس نہیں ہورہی۔

آج سے 19 دن بعد ایک اور انتخاب ہونا ہے۔ اس انتخاب کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی معروضِ وجود میں آنی ہے اس میں بیٹھنے کی تمنا لئے کئی امیدوار میدان میں ہیں۔ ہمیں دن کے 24 گھنٹے باخبر رکھنے کا دعوے دار میڈیا ان امیدواروں کی جیت یا ہار کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے ان کے حلقوں میں جارہا ہے۔ فیلڈ میں گئے اینکر خواتین وحضرات ووٹروں سے یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے حلقوں میں کوڑے کے ڈھیر کیوں نظر آرہے ہیں۔ پینے کا پانی میسر ہے یا نہیں۔

شہری حقوق کے حوالے سے یہ سوالات یقینا بہت بنیادی ہیں۔ سوال مگر یہ بھی اٹھتا ہے کہ محلوں کی صفائی ستھرائی اور وہاں صاف پانی پہنچانا اصولاََ کونسے اداروں کی ذمہ دار ی ہے۔ جمہوری روایات اور اصولوں کی روشنی میں دیکھیں تو یہ سب کام مقامی حکومتوں کی ذمہ داری ہوا کرتے ہیں۔ سوال تو یہ اٹھانا چاہیے کہ ہم اتنے برس گزرجانے کے باوجود مقامی حکومتوں کا وہ نظام کیوں نہ قائم کر پائے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناسکے۔ مذکورہ سوالات اٹھانے کا مناسب وقت بھی گزرے وہ تمام برس تھے جو 2008ء سے اب تک ہم نے نام نہاد جمہوری حکومتوں کے ساتھ گزارے ہیں۔

یہ حکومتیں بلدیاتی نظام کو ہمیشہ ایوب خان، جنرل ضیاء اور پرویز مشرف کی حکومتوں کا ’’تحفہ‘‘ سمجھ کر اس کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہیں۔ سپریم کورٹ نے ضد کی تو بالآخر بلدیاتی انتخابات کروانا پڑے۔ ان کے نتیجے میں لیکن جو میئر وغیرہ منتخب ہوئے انہیں مناسب فنڈز اور اختیارات منتقل نہیں ہوئے۔ اسلام آباد بدستور CDA کے افسروں کا محتاج رہا۔ لاہور کے معاملات LDA کی انتظامیہ چلاتی رہی جو فقط خادم اعلیٰ کو جوابدہ تھی۔ LDA کے احد چیمہ اب نیب کی تحویل میں ہیں۔ شہباز صاحب جان کی امان پانے اقتدار کے اصل مالکوں تک اپنی فریاد لے جانے کے لئے کسی پل کی تلاش میں ہیں۔ پنجاب کے مختلف حلقوں سے ان کی جماعت کی ٹکٹ پر کھڑے ہوئے قومی اسمبلی کے امیدوار مگر اپنے علاقوں میں کوڑے کے ڈھیر کے بارے میں تندوتلخ سوالات کا سامنا کررہے ہیں۔

پارلیمان کو سڑک، بجلی اور گندے پانی کی نکاسی تک محدود مگر کس نے کیا تھا۔ اس بارے میں غور کبھی ہوا ہی نہیں۔ 5 جولائی 1977 کے دن سے اس عمل کا آغازہواتھا۔ اس دن ایک ایسی پارلیمان سے نجات حاصل کی گئی جسے خلقِ خدا کے ایک بہت بڑے اور متحرک حصے نے جعلی انتخابات کی پیداوار قرار دیا تھا۔ اس پارلیمان پر ضیاء حملے کی کامیابی پر مٹھائیاں بھی بٹی تھیں۔ جنرل ضیاء نے 90 دنوں میں صاف، شفاف انتخابات کروانے کا وعدہ کیا۔ اسے مگر چیخ چیخ کربتایا گیا کہ انتخاب سے قبل احتساب ضروری ہے تاکہ راشی اور بدعنوان افراد دولت اور دھڑے کے زور سے پارلیمان تک نہ پہنچ پائیں۔ انتخاب سے پہلے احتساب کے نعرے نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے گھاٹ پہنچایا۔ اس پھانسی کے بعد بھی مگر انتخاب نہ ہوپائے۔ افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آگیا۔

ہمیں خدشہ لاحق ہوگیا کہ لادینی نظام خیبر کے راستے پاکستان پہنچ جائے گا۔ اسلام کے نام پر قائم ہوئے ملک کو لہذا لادینی نظام سے بچانے کی فکر لاحق ہوگئی۔ ہماری اس فکر نے افغان حکومت کے سرپرست کمیونسٹ روس کو بھی فکرمند کردیا۔ اس کی افواج اپنے دوستوں کو بچانے افغانستان آگئیں اور ہم ان کے خلاف جہاد میں مصروف ہوگئے۔

افغانستان کو ’’لادینی‘‘ قوتوں سے آزاد کروانے والا ’’جہاد‘‘ اب بھی جاری ہے۔ روس کی جگہ اب امریکہ نے لے لی ہے۔ مجاہدین کی جگہ طالبان آگئے ہیں۔ امریکی انتظامیہ بارہا کہے جارہی ہے کہ طالبان کو ہمارے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ ان تک پہنچنے والی رقوم کی ترسیل کو روکنے کے نام پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ کاوشوں سے پاکستان کا نام FATF کی گرے لسٹ میں ڈال دیاگیا ہے۔ چین جو اپنا یار ہے اور جس پر جان بھی نثار ہے اس ضمن میں ہماری کوئی مدد نہیں کرپایا۔ اُلٹا ہمارے خلاف ووٹ دے دیا۔ ہمارے سعودی بھائی بھی اس حوالے سے مہربان ثابت نہ ہوئے۔ ترکی نے تھوڑی مدد کی کوشش کی لیکن بالآخر مخالف پارٹی کے ساتھ مل گیا۔

انتخابی مہم میں شریک امیدواروں سے مگر اس ضمن میں کوئی ایک سوال بھی نہیں پوچھا جارہا۔ عمران خان، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی اس ضمن میں خاموش ہیں۔ یہ بات کسی کو یاد ہی نہیں رہی کہ پاکستان گرے لسٹ میں رہا تو ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں دن بدن مہنگاہوتا چلا جائے گا۔ پاکستانی روپے کی قدر کم ہوتی رہی تو درآمد شدہ پٹرول کی قیمت بڑھتی رہے گی۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے کا اثر دیگر اشیائے صرف پر بھی ہوگا۔ بجلی بھی مہنگی ہوتی چلی جائے گی۔ ہماری برآمدات کے ذریعے آئی رقوم کے مقابلے میں درآمدات کی وجہ سے ہوئے خرچ کے مابین فرق خوفناک حد تک بڑھتا چلا جائے گا۔ اس خسارے کو کم کرنے کے لئے ریاست کے بنیادی امور چلانے کے لئے ہمیں IMF جیسے اداروں سے Bailout کی درخواستیں کرنا پڑیں گی۔ جو ریاست روزمرہ کا خرچ چلانے کیلئے بھی قرضے کی محتاج ہو وہ گنجی ہے۔ نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ کوڑے کے ڈھیراٹھانے کے لئے رقم کہاں سے لائے گی؟ صاف پانی کیسے فراہم کرے گی؟

FATF کا ذکر مگر انتخابی ہنگاموں کے اس موسم میں آپ کو فیلڈ میں گئے میرے جی دار اور بے باک اینکر خواتین وحضرات کی وساطت سے کبھی سننے کو نہیں ملے گا۔ ہمیں یہ بھی نہیںبتایا جائے گا کہ قومی اسمبلی کے اراکین کے ذریعے ’’ترقیاتی کام‘‘ کروانے کا تصور جنرل ضیاء اور ورلڈ بینک کے لاڈلے وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے 1985 میں متعارف کروایا تھا۔ اس تصور کی بدولت پارلیمان کا رکن ٹھیکے داروں کے ساتھ مل کر اپنے حلقوں میں بجلی اور گیس پہنچاتا رہا۔ گزشتہ چند برسوں سے صاف پانی فراہم کرنے کے دھندے میں مصروف ہوگیا ہے۔

عوام کے نام نہاد منتخب شدہ نمائندوں کو ان کی ’’اوقات‘‘ میں رکھنے کے لئے اس نظام کی ضرورت تھی۔ ’’ترقیاتی اسکیموں‘‘ کے کام پر انہوں نے ٹھیکے داروں سے نئے انتخاب کے لئے ’’خرچہ‘‘ جمع کرنے کی ترکیبیں بھی ایجاد کیں۔ ان سب ترکیبوں کا ہمارے اصل حکمرانوں کو شروع دن سے خوب علم تھا۔ جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھیں۔ جب ضرورت پڑی تو احتساب والوں کو متحرک کردیا اور قمرالاسلام ایسے لوگ بندے کے پتر نہ بنے تو نیب کے سیف ہائوسز میں بھیج دئیے گئے۔

یہ سارا نظام 5 جولائی 1977 کی بدولت متعارف ومستحکم ہوا ہے اور اب آئین کے جنرل ضیاء کی وجہ سے ’’مزید اسلامی‘‘ ہوئے آرٹیکل 62/63 بھی ہیں۔ یہ متحرک عدلیہ کو ’’صادق وامین‘‘ ڈھونڈنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ اب تک مگر صرف دوخوش نصیب -عمران خان اور شیخ رشید احمد- ہی صادق اور امین کی سند حاصل کر پائے ہیں۔ نئی اسمبلی قائم ہوجانے کے بعد اس کے کئی اراکین کو بھی ایسی ہی سند درکار ہو گی۔ FATF کی گرے لسٹ سے باہر کیسے آنا ہے؟اس سوال پر غور کرنے کی کسی کو مہلت ہی نہیں ملے گی۔