اتوار کی رات بستر پر لیٹا ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہفتے کے آخری تین دن میں ٹی وی اور سوشل میڈیا سے دور رہتا ہوں۔ دنیا میں کیا ہورہا تھا اس کے بارے میں بے خبر تھا کہ رات کے بارہ بجنے میں 20 منٹ کے قریب آتش بازی پھوٹ پڑنے کی آوازیں آئیں۔ میں نے فرض کرلیا کہ اسلام آباد شہر سے منسوب ہوئی یونائیٹڈ نے PSL کا فائنل جیت لیا ہے۔ اپنے اندازے کی تصدیق کے لئے فون دیکھا تو مطمئن ہوگیا۔
ٹویٹر کے ذریعے مختلف لوگ اب یہ جاننے کی کوشش بھی کررہے تھے کہ فتح کا جشن اس شہر والے کہاں منائیں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ شاید یہاں کے ڈی-چوک کو جسے عمران خان صاحب نے 2014 میں دئیے دھرنے کے ذریعے قاہرہ کا التحریر سکوائر بناکر تاریخ کا حصہ بنانا چاہا تھا، اسلام آباد کے نوجوان بھنگڑاوغیرہ ڈالنے کے لئے منتخب کریں گے۔ وہاں مجمع لگایا نہیں مجھے اس کی خبر نہیں۔ ٹویٹر ہی کے ذریعے اگرچہ اطلاع یہ بھی ملی کہ جناح سپر مارکیٹ میں گاڑیوں کے ہارن بجائے جارہے ہیں۔ شاید دھوم دھڑکا وہاں دیکھنے کو ملے۔
ٹویٹر اکاﺅنٹ کھولا تو اندازہ ہوا کہ اس دن کے دس Top Trends میں سے کم از کم سات فقط PSLسے متعلق رہے ہیں۔ ایک دن کے لئے پاکستانی اپنے مسائل اور پریشانیاں بھول کر PSL کی لگائی رونق میں کھوئے ہوئے تھے۔ ان کی Excitement کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی۔ وقتی ہی سہی PSL کی بخشی خوشی ایک نعمت نظر آئی۔
اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ کو مزید غور سے دیکھنا شروع کیا تو احساس یہ بھی ہوا کہ اتوارکا تمام دن یہ طے کرنے میں خرچ ہوا ہے کہ کراچی میں کئی برسوں سے قائم ہوئے نیشنل اسٹیڈیم میں نوبرسوں کے طویل وقفے کے بعد کرکٹ کو واپس لانے کا کریڈٹ کسے دیا جائے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے وطنِ عزیز سے محبت کو گہرائی فراہم کرنے کو بے چین افراد کا اصرار تھا کہ جلوہ پاک فوج اور خاص کر رینجرز کی مہربانیوں سے لگا ہے۔ کراچی کو ورنہ سیاسی جماعتوں اور جمہوری نظام نے بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی آماجگاہ بنارکھا تھا۔ نواز شریف کے چاہنے والے ”میلا بھی تو ہے“ جیسے معصوم دعوے کرتے نظر آئے۔ 2008 سے سندھ میںحکومت پیپلز پارٹی کی ہے۔ سوشل میڈیا پر متحرک اس کے جیالے نیشنل اسٹیڈیم کو فائنل کے قابل بنانے پر داد وتحسین طلب کررہے تھے۔ شہر کراچی کے نوجوانوں کی اکثریت کو مگر ”وڈیروں“ کی حکومت سے بہت شکایات ہیں۔ انہیں نیشنل اسٹیڈیم میں عالمی معیار کے مطابق کچھ نیا تعمیر ہوا نظر نہیں آیا۔ اسٹیڈیم میں داخلے کے بعد نشستیں انہیں مناسب انداز میں تیارہوئی نظر نہ آئیں۔ خواتین مناسب باتھ رومز نہ ہونے کی شکایات بھی کررہی تھیں۔ اجتماعی رویہ اگرچہ ان سب کا رنگ میں بھنگ نہ ڈالنے کا رہا۔
PSL کے حوالے سے سوشل میڈیا پر سب سے کم نمائندگی تحریک انصاف کے انٹرنیٹ دلاوروں کی نظر آئی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب البتہ بہت متحرک تھے۔ ان کی پراثر طاقتِ گفتار کا مقصد مگر پاک فوج کو سراہنا رہا۔ فرطِ جذبات میں لیکن انہیں یہ بھی یاد آجاتا کہ عمران خان صاحب نے انہیں تحریک انصاف میں شامل کرنے کے لئے لاکھوں کے بول سنے ہیں۔ کپتان کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ریگولر اور سوشل میڈیا پر ان کے مخالفین کی بولتی بند کردیں گے۔ شاید اپنے کپتان کی اس خواہش کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب نے 1992 کا ورلڈ کپ بھی بارہایاد کیا۔
ٹویٹر کے ذریعے محبت پھیلانا مگر ممکن نہیں ہے۔ کینیڈا کا ایک محقق ہوتا تھا۔ اس نے ٹیلی وژن کے متعارف ہونے کے بعد اس کے ذریعے ہوئے ابلاغ کی حرکیات پر توجہ دی تھی اور بالآخر ٹی وی کو Idiot Box کا نام دیا۔ اس محقق ہی کا ایک مشہور قول ہے کہ Medium is the Message۔
ابلاغ کے ہنر کو سمجھانے کے لئے بتائی اس Definition کو سادہ الفاظ میں اُردو زبان کے استعمال کے ذریعے سمجھانا میرے لئے ناممکن ہے۔ یوں کہہ لیجئے کہ اس محقق کی نظر میں غزل مثال کے طورپر صرف عاشقانہ جذبات وکیفیات ہی بیان کرسکتی ہے۔ ڈرامہ عظیم تر خیالات اور ان پر عمل پیرا شخصیات کے مابین تصادم کی تفہیم یا تحلیل کے لئے ایجاد ہوا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں نہیں پوری دنیا کے بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد لکھنے والے اب یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ٹویٹر اور فیس بک وغیرہ درحقیقت محض افراد کے دلوں میں نسلوں سے موجود تعصبات کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ اتوار کی رات 12 بجنے میں 20 منٹ پر آتش بازی کی آواز سے (جو فقط تھوڑی دیر تک جاری رہی )چونک اُٹھنے کے بعد میں نے اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ کی Time Line کو غور سے دیکھا تو اس دعویٰ کی تصدیق ہوگئی۔
تعصبات کے ذکر سے قبل میں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میری دانست میں ہماری سکرینوں پر عقلِ کل دِکھتے اینکرخواتین وحضرات خود کو یقینا Celebrities شمار کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لوگ ہر معاملے پر ان کی رائے جاننے کو بے چین ہوتے ہیں۔ اینکر خواتین وحضرات نے لہذا اپنے مداحین کو ہرگز مایوس نہیں کیا۔ PSL کے بارے میں مسلسل ٹویٹ کرتے رہے ہیں۔ ان کے اکثر ٹویٹ البتہ مجھے Laboured محسوس ہوئے۔ آمد نہیں آورد والا معاملہ نظر آیا۔ حاضری مگر لگ گئی۔
PSL کے حوالے سے میرے ٹویٹر اکاﺅنٹ کی ٹائم لائن پر جو تعصبات نظر آئے میں ان کا ذکر آج کے دن جان بوجھ کر گول کردینا چاہتا ہوں۔ کراچی میں رہتے ہوئے اسلام آباد کا ذکر کرنے والوں کا ایک تعصب البتہ مجھے بہت کیوٹ محسوس ہوا۔
تواتر کے ساتھ ایسے لوگوں کی جانب سے تاثر یہ پھیلایا جارہا تھا کہ اسلام آباد والے جلد سوجاتے ہیں۔ میچ کا فیصلہ لہذارات 11 بجے سے پہلے ہوجانا چاہیے۔ کراچی روشنیوں کا شہر ہے۔ یہاں کے باسی پوری رات جاگنے اورزندگی سے لطف اندوز ہونے کے عادی ہیں۔ اسلام آباد والوں کو رونق میلے کی کیا سمجھ؟
PSL کی لگائی رونق سے غیر متعلق ہوتے ہوئے بھی میں یہ اطلاع دینے پر مجبور ہوں کہ اسلام آباد 1975 میں آیا تھا۔ لاہور میراآبائی شہر ہے اور میں اسے پُر رونق، ”سات دن اور 8 میلے“ والا شہر تسلیم کرتا تھا۔ لاہور سے اس شہر آیا تو شام ہوتے ہی اس پر چھائی خاموشی سے گھبرا جاتا۔ کئی بار یوں محسوس ہوتا کہ خدانخواستہ قبرستان میں رہنا شروع ہوگیا ہوں۔ 20 برس گزارنے کے بعد جوان ہوئے دل کو اس خاموشی سے بہت وحشت ہوتی تھی۔
1990 کی دہائی کے آغاز سے اسلام آباد مگر ”پاکستان“ سے ”15 کلومیٹر دور“ نہیں رہا۔ یہ بہت تیزی سے پھیلا ہے۔ یہاں کے کئی سیکٹرز میں مکان پر مکان چڑھ رہا ہے۔ بہت چوڑی سڑکیں جنہیں ایونیو کہا جاتا ہے اکثر ٹریفک کی وجہ سے جام ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس شہر کے محلوں میں رات گئے تک نوجوان تیز رفتاری سے گاڑیاں اور موٹرسائیکل چلاتے ہوئے اچانک بریکیں لگاکر خوفزدہ کرنے والی Screeches کی صدائیں نکالتے ہیں۔ میرے ہاں مہمان آئیں تو اکثر گرم کھانے کے لئے کسی ریستوران کی خاص خوراک منگوانے اپنا ڈرائیور میں گھر سے رات بارہ بجے کے بعد روانہ کرتا ہوں۔ وہ تندوروں سے تازہ نکلے نان سمیت واپس آتا ہے۔
اسلام آباد بھی یقین مانیں، لاہور اور کراچی جیسا ہوچکا ہے اور ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ ان شہروں پہ چھائی آپادھاپی کو اپنالینے کے بعد یہ شہر میرے لئے اب اجنبی ہوتا چلا جارہا ہے۔ میں اس کی اداس شاموں کو اب بہت دُکھی دل سے یاد کرتا ہوں۔ بارشیں بھی اس شہر سے ناراض ہوچکی ہیں۔ ہوا میں گردجمع ہوچکی ہے اور شاذ ہی ہوا کے ساتھ خوشبوﺅں کا وہ جھونکا دلوں میں طمانیت کا سبب ہوتا ہے جو کبھی اس شہر کا معمول تھا۔