لطیفہ بہت ہی پرانا ہے، دہرادینے میں لیکن کوئی ہرج نہیں۔ ہمارے زیادہ تر لطیفوں کی طرح موضوع اس کا بھی ایک سردار جی ہیں۔ موصوف نے بڑے چائوسے زمین کے ایک وسیع رقبے پر کوٹھی بنوائی تو اس میں ترکی کے متعارف کردہ تین تاریخی نوعیت کے حمام بھی بنوائے۔ ایک کا مقصد انہوں نے گرم پانی سے لطف اندوز ہونا بتایا۔ دوسرے میں ٹھنڈے پانی کی راحت تھی اور تیسرا؟ یہ سوال ہوا تو جواب آیا’’کبھی کبھار انسان کا نہانے کو دل نہیں بھی چاہ رہا ہوتا۔ ‘‘
اس گھسے پٹے لطیفے سے آغاز اس لئے کیا ہے کہ آج میرا کالم لکھنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ موضوعات کی ہرگز کمی نہیں۔ خوف نے مگر ذہن کو مفلوج بناڈالا ہے۔ منیرؔنیازی نے کہا تھا کہ ’’لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے‘‘ اور نام نہاد ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے کئی برسوں سے جاری موسم میں ٹیلی وژن اور اخبارات کو بہت مہارت کے ساتھ چند موضوعات پر کچھ بھی نہ کہنے کو مجبور کردیا گیاہے۔
گئے وقتوں میں طباعت سے قبل سنسر والے اخبارات کی پریس کے لئے تیار کی ہوئی کاپیوں سے ’’بُری‘‘ خبریں، تصویریں اور کالم نکال دیا کرتے تھے۔ بعدازاں ’’پریس ایڈوائس‘‘ شروع ہوگئی۔ بے روزگاری کا خوف ویسے بھی کئی طرم خانوں کو محتاط رہنا سکھادیتا ہے۔ ’’مکمل آزادیٔ اظہار‘‘ کے اس جعلی موسم میں لیکن روز گار جانے کا خوف نہیں رہا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ’’ممنوعہ علاقوں‘‘ کا رُخ کرنے والوں پر غداری کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ اس الزام سے کام نہ چلے تو ’’توہین‘ ‘کے سنگین الزامات لگاکر آپ کا جینا اجیرن بنایا جاسکتا ہے۔ یہ سب ہتھکنڈے بھی کام نہ آئیں تو ’’نامعلوم افراد‘‘ ہیں اور اسلام آباد کے سیف سٹی میں لگے کیمرے جو بوقتِ ضرورت اندھے ہوجاتے ہیں۔
صحافت کا سارا حسن’’سو پھولوں کو اپنا جوبن دکھانے دو‘‘ والی تجویز پر عمل کرنا ہے۔ ’’سچ‘‘ کو مگر اب سادہ اور یک رُخا بنادیا گیا ہے۔ ریاستی طاقت کے بل ڈوز سے بنائی ایک ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے۔ اس سے ہٹ گئے تو بدنامی کی کھائی میں گرجائو گے۔ بیروزگار ہوکر راہ چلتے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے پائے جائوگے۔
مولانا محمد علی جوہر اپنے زمانے کے بہت فطین انسان تھے۔ علی گڑھ کے ذہین ترین طلباء میں سے ایک۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ سرکاری ملازمت کے بجائے اپنے خیالات کو صحافت کے ذریعے فروغ دینا چاہا۔ انگریزی کا اخبار ’’کامریڈ‘‘ نکالا تھا۔ سنا ہے اس کے اداریے پڑھ کر کئی نسل پرست انگریز بھی اپنی زبان درست کرتے پائے جاتے تھے۔ خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں فکر کی آگ بھڑکائی تو ’’باغی‘‘ ٹھہرادئیے گئے۔ کراچی کے خالقدیناہال میں ان کے خلاف ایک تاریخی مقدمہ چلا۔ بالآخر تھک گئے۔ ذیابیطس کے مرض نے کھوکھلا کردیا۔ شکست کھائے دل نے ’’غلام‘‘ مُلک میں دفن ہونا گوارہ نہ کیا۔ بیت المقدس کے احاطے میں دفن ہوئے۔
مولانا محمد علی جوہر جیسا قادر ا لکلام صحافی بھی خوف فسادِ خلق کی وجہ سے ناگفتنی کو شعرکی صورت بیان کرنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ استعارے، علامتیں، تراکیب وتلمیحات شاعری کو بہت کچھ کہنے کے قابل بناتی ہیں۔ بات کہہ دی جاتی ہے مگر اسے گرفت میں لاکر قابلِ تعزیر بنانا ممکن نہیں ہوتا۔ ’’عشق‘‘ بھی ایسا ہی ایک استعارہ ہے اور مولانا محمد علی جوہرؔ نے کہا:’’ہے یہاں نام عشق کا لینا۔ اپنے پیچھے بلالگالینا‘‘۔ فریدہ خانم نے یہ غزل گائی ہے۔ کبھی موقع ملے تو ضرر سنیے گا۔ طبلے پر سنگت اس غزل میں استاد شوکت علی خان نے کی ہے۔ میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا جب ریڈیو پاکستان لاہور میں یہ غزل ریکارڈ ہوئی تھی۔ میں سکول براڈ کاسٹ کے ایک کوئز پروگرام میں حصہ لینے وہاں گیا ہوا تھا۔
ریڈیو سٹیشن پر ایک ڈیوٹی روم ریکارڈنگ سٹوڈیوز کی طرف جانے والی راہداری کے دائیں ہاتھ والے کونے پر دروازے سے پہلے آتا تھا۔ اس کمرے میں بیٹھا افسر بہت غور سے اسٹوڈیوز سے جاری براہِ راست نشریات یا ریکارڈنگ کو سننے کا ذمہ دار تھا تاکہ کوئی ’’غلط‘‘ بات نہ چلی جائے۔ متجسس اور ذرا شرارتی بچے کی طرح میں اس عمارت کے ہر کمرے میں منہ اٹھائے چلاجایا کرتا تھا۔ اس زمانے کے بزرگ بہت شفیق ہوا کرتے تھے۔ بجائے ڈانٹنے کے بلاکر پاس بٹھالیتے اور میرے اُلٹے سیدھے سوالوں کے جوابات فراہم کرنے کو بھی آمادہ۔
جس وقت یہ غزل ریکارڈ ہورہی تھی۔ ڈیوٹی روم میں اس کی گونج تھی تو میں وہاں پہنچ گیا۔ سفید شلوار کرتا پہنے ایک ادھیڑ عمر بزرگ جن کے سرکی کھوپڑی کے گرد بالوں کی ایک جھالر رہ گئی تھی، اس کمرے میں رکھی ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔
بعدازاں معلوم ہوا کہ اس بزرگ کا نام صوفی تبسم تھا۔ ٹوٹ بٹوٹ کی نظمیں لکھنے والے صوفی صاحب جن کے ’’چوہے‘‘ گھر سے شکارکرنے نکلتے ہیں۔ ’’ایک چوہے کو آگئی کھانسی…‘‘ اور بالآخر ایک کی چونج اور ایک کی دم۔
’’ہے یہاں نام عشق کا لینا‘‘ کی ریکارڈنگ سنتے ہوئے اپنے آنسوئوں پر قابو نہ پاسکنے والے صوفی تبسم صاحب نے بھی ’’کرنے چلے شکار‘‘ والی نظم شاید فقط بچوں ہی کے لئے نہیں لکھی تھی۔ شاید وہ اس نظم کے ذریعے عام آدمی کی بے بسی بھی بیان کرنا چاہ رہے تھے۔
دیوقامت گلیورکی ایک کہانی بھی ہے جو بونوں کے جزیرے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس جزیرے کے تمام لوگ یکسو ہوکر اسے رسیوں سے باندھ کر زمین سے اُٹھنے کے ناقابل بنادیتے ہیں۔ بونوں کے جزیرے میں اس کی دیوقامتی مضحکہ خیز محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ صوفی تبسم کے چوہے اورجونا تھن سوفٹ کے تخلیق کردہ گلیور کے بونے شاید ایک جیسی علامتیں ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر ایسے ہی بونوں کے نرغے میں آگئے ہوں گے۔ ’’عشق‘‘ کی جرأت دکھائی تو اپنے پیچھے بلالگالی۔ ذیابیطس نے جسم کی توانائی چھین لی۔ موت آئی تو اپنی زمین پر نہیں بیت المقدس کی مٹی تلے دفن ہوجانے پر مجبور ہوئے۔
قادرابکلامی مجھے نصیب نہیں ہوئی۔ ’’عشق‘‘ کا جنون بھی لاحق نہیں۔ چند روز قبل جبڑے کا آپریشن کروانا تھا۔ اس سے قبل شوگر ٹیسٹ کروانا بہت ضروری تھا۔ مجھے اپنا خون دے کر کسی بھی نوعیت کا ٹیسٹ کروانے سے خوف آتا ہے۔ ’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘ والی عافیت کی چھائوں میں رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ جبڑے کا آپریشن کروانا بھی مگر ضروری تھا کیونکہ گوشت خور ہوں۔ ’’پرہیزی کھانا‘‘ تشخیص ہوا تو کسی مرض سے نہیں غذا کی کمی کی وجہ سے فوت ہوجائوں گا۔ بہت خوشی ہوئی کہ عمر کے اس حصے میں پہنچ کر بھی شوگر نارمل قرار پائی۔ ثابت ا س سے یہ بھی ہوا کہ ’’عشق‘‘ کی اذیت سے بچا ہوا ہوں۔ میرے پیچھے اسی لئے کوئی بلا نہیں لگی۔ ’’کرنے چلے شکار‘‘ کا بھی شوق نہیں۔ سردار جی کو کبھی کبھار نہانے کو دل نہ چاہنے والے موڈ کی تسلی کے لئے بھی ایک حمام درکار تھا۔ میرے پاس بھی لکھنے کو دل نہ کرتے ہوئے بھی ایک کالم کی جگہ موجود ہے جسے پُر کرنے کا ہنر ہر صورت سیکھنا ہوگا۔