1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. یہ ہمارے لئے خیر کی خبر نہیں

یہ ہمارے لئے خیر کی خبر نہیں

وائٹ ہاﺅس نے سرکاری طور پر تصدیق کر دی ہے کہ تین روز قبل پاکستانی وزیر اعظم نے امریکی نائب صدر سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات جو 30 منٹ تک جاری رہی پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ سفارتی زبان میں ایسی ملاقاتوں کو Unscheduled کہا جاتا ہے۔ امریکی نائب صدر کے دفتر سے متعلق حکام کے مطابق اس ملاقات میں وزیر اعظم پاکستان سے افغانستان اور جنوبی ایشیاءمیں جنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے Do More کا تقاضا کیا۔ یہ ملاقات ہو جانے کے تقریباً 3 گھنٹے گزر جانے کے بعد امریکی وزارتِ خارجہ کے ہمارے خطے پر نگاہ رکھنے والے حکام نے واشنگٹن میں مقیم صحافیوں کو تفصیلی بریفنگ بھی دی۔ اس بریفنگ کے دوران واضح الفاظ میں متنبہ کر دیا گیا کہ اگر پاکستان نے اپنے تئیں بقول ان کے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات نہ اٹھائے تو اس ضمن میں امریکہ ہی کو کچھ کرنا ہوگا۔ اس بات کی وضاحت کرنے سے انکار کردیا کہ پاکستان کو ممکنہ اقدامات اٹھانے کے لئے کوئی ڈیڈ لائن بھی دی گئی ہے یا نہیں۔ اشاروں کنایوں میں فقط اطلاع یہ دی گئی کہ پاکستان کو بخوبی علم ہے کہ اس سے گزشتہ چھ ماہ کے دوران تسلسل سے کن گروہوں کے خلاف کس نوعیت کے اقدامات اٹھانے کا تقاضا ہو رہا ہے۔ میرے لئے بہت حیران کن بات البتہ یہ کہ واشنگٹن میں تعینات ہمارے سفارت کاروں کو اس ملاقات کے بارے میں قطعاً کوئی علم نہیں تھا۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی اس ضمن میں اپنا موقف ہمارے سامنے نہیں رکھا ہے۔ پاک فوج کے محکمہ تعلقات (ISPR) کے ڈائریکٹر جنرل جناب آصف غفور صاحب نے اگرچہ ایک خلیجی اخبار کو تفصیلی انٹرویو ضرور دیا ہے۔ نظر بظاہر اس انٹرویو کے ذریعے عباسی اور پنس کے مابین ہوئی ملاقات کے تناظر میں پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے جو باتیں ہوئی ہیں ان کو نپے تلے انداز میں رد کر دیا گیا ہے۔ پیر کی صبح چھپے کالم میں مجھے یہ اعتراف کرنا پڑا کہ جمعرات کی سہ پہر سے مختلف لوگ مجھ سے رابطہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ وزیر اعظم عباسی امریکہ میں اپنے قیام کے دوران وہاں کے حکام سے ملاقات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں۔ خبریں گھڑنے کی مجھے عادت نہیں۔ دیانت داری سے لا علمی کا اظہار کرتا رہا۔ ایسا کرتے ہوئے اپنے سے رابطہ کرنے والوں کو البتہ یہ بھی یاد دلاتا رہا کہ میرے ایک دیرینہ ساتھی جناب صالح ظافر نے ایک نہیں دو خبروں کے ذریعے تفصیلی طورپر بیان کیا ہے کہ وزیر اعظم پاکستاان فقط اپنی ہمشیرہ کے آپریشن کے دوران موجود رہنے کے لئے امریکہ گئے ہیں۔ ان کا یہ دورہ خالصتاً نجی نوعیت کا ہے۔ اسی لئے انہوں نے امریکہ میں متعین ہمارے سفارت کاروں سے اپنے قیامِ امریکہ کے دوران رابطہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ صالح ظافر کے توسط سے جو بات ہمارے سامنے آئی تھی میں نے اسے As It Appears قبول کر لینے کو ترجیح دی۔

مجھ سے رابطہ کرنے والے مگر اصرار کرتے رہے کہ واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے اور ہماری وزارت خارجہ میں موجود ان کے Sources بضد ہیں کہ وزیر اعظم اہم امریکی حکام سے ملاقاتوں کے لئے وقت مانگ رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ وزیر اعظم عباسی نے حال ہی میں امریکہ کے لئے جس پاکستانی کی بطور سفیر تعیناتی کی منظور ی دی ہے، اسے واشنگٹن میں خیر مقدم کرنے سے قبل چند سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کسی سفیر کی غیر ملک تعیناتی سے قبل اس کی شخصیت کا تعارف ایک ایسی دستاویز کے ذریعے کروایا جاتا ہے جسے سفارتی زبان میں ایگریما کہتے ہیں۔ عموماً ایگریما میں فراہم کردہ معلومات کے بارے میں سوالات نہیں اٹھائے جاتے۔

علی جہانگیر صدیقی کے بارے میں لیکن مبینہ طور پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ میرے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ امریکی یہ جاننے کو بے چین ہیں کہ تجویز کردہ سفیر کے امریکہ میں کچھ کاروباری روابط یا مفادات ہیںیا نہیں۔ امریکہ نے علی جہانگیر کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں یا نہیں مجھے اس کی بابت ہرگز کوئی ٹھوس اطلاع میسر نہیں ہے۔ ایک بات اگرچہ بہت وثوق کے ساتھ بیان کی جا سکتی ہے کہ سینئر پاکستانی صحافیوں اور مقبول ترین اینکر خواتین وحضرات کے ساتھ ہوئی حالیہ چند ملاقاتوں میں پاک فوج کے اعلیٰ ترین عہدے داروں نے تجویز کردہ شخص کے بارے میں ناخوش گوار حیرت کا اظہار کیا۔ یہ بات عیاں تھی کہ مذکورہ شخص کی نامزدگی سے قبل عسکری قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ عسکری قیادت نہ صرف اس ضمن میں اپنائی ”خود مختاری“ کے بارے میں ناراض نظر آئی بلکہ اس خدشے کا اظہار بھی کرتی رہی کہ سفارتی امور کی باریکیوں سے قطعی ناواقف دِکھتا ایک نو عمر شخص امریکہ میں تعیناتی کے دوران پاکستان کے لئے کا ر آمد بھی ہوسکتا ہے یا نہیں۔ مختصراً اس تعیناتی کے بارے میں بدگمانی بہت واضح تھی۔ اس بدگمانی کے تناظر میں وزیر اعظم ”اچانک“ امریکہ روانہ ہوگئے۔ وہاں ان کا قیام فقط ”نجی“ بھی نہیں رہا۔ امریکی نائب صدر سے ان کی ایک ملاقات بھی ہوگئی۔ اس ملاقات کے بعد پاکستان کو تقریباً دھمکی محسوس ہوتے پیغامات دئیے گئے ہیں۔ ان پیغامات کا صحافیوں کے ذریعے بھیجے جانا مجھے یہ بھی سوچنے پر مجبور کررہا ہے کہ غالباً پاکستانی وزیر اعظم نے امریکی نائب صدر سے اپنی ملاقات میں Do More کرنے سے انکار کر دیا ہوگا۔ عسکری اور منتخب سیاسی قیادت کے مابین موجود خلیج اور بدگمانیوں کے موجودہ موسم میں لیکن معاملہ کو سادہ انداز میں نہیں لیا جائے گا۔ عالمی امور پر نگاہ رکھنے والے ہمارے ایک جید اینکر پرسن ہیں ڈاکٹر معید پیرزادہ۔ اتوار کی شب کھانے سے قبل میں نے تھوڑی دیر کو ٹیلی وژن کھولا تو وہ اپنا شو ختم کر رہے تھے۔ یہ شو ختم کرتے ہوئے انہوں نے عباسی صاحب کو متنبہ کیا کہ وزارتِ خارجہ کی جانب سے فراہم کردہ کسی Note Taker کے بغیر ان کی امریکی نائب صدر سے ملاقات غیر ذمہ دارانہ تھی۔ لفظ انہوں نے اگرچہ ایک اور استعمال کیا تھا۔ میں دو ٹکے کا رپورٹر اسے دہرانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حیرانی اگرچہ اس وقت ہوئی جب ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ ملاقات کا تقابل اس ملاقات سے کیا جو کارگل کا مسئلہ سلجھانے کے لئے نواز شریف صاحب نے اپنے دوسرے دورِ حکومت کے دوران اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن سے 4 جولائی 1999ء کے روز کی تھی۔ ہماری وزارتِ خارجہ سے متعلقہ کئی ”بسمارک“‘ یہ دعویٰ کرتے پائے جاتے ہیں کہ چونکہ مذکورہ ملاقات میں نواز شریف کو ”گائیڈ“ کرنے کے لئے کوئی پاکستانی سفارت کار موجود نہیں تھا، اس لئے پاکستان کے وزیر اعظم کلنٹن سے ملاقات کرتے ہوئے ”بکری“ ہوگئے۔ کارگل سے پاکستانی فوجیں واپس بلانے کا مطالبہ بغیر کوئی شرط عائد کئے مان لیا۔ بھارت نے اس رویے کو اپنی اخلاقی اور سفارتی فتح قرار دیا۔ اسی باعث بالآخر پاکستان میں 12 اکتوبر1999ء ہوگیا یعنی جنرل مشرف کا ٹیک اوور۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ان دنوں مجھے کارگل کے واقعہ کی وجہ سے پیدا ہوئی بحرانی صورتِ حال نظر نہیں آرہی۔ امریکہ سے ہمارے تعلقات البتہ ہرگز خوش گوار نہیں ہیں۔ گزشتہ سال اگست میں صدر ٹرمپ نے افغانستان کے بارے میں ”نئی پالیسی“ کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں سخت زبان استعمال کی تھی۔ اس سال کی پہلی صبح بھی موصوف نے جو ٹویٹ کیا اس کا نشانہ پاکستان تھا۔ اس ٹویٹ کے بعد لیکن ہمارے سیاسی و دفاعی حکام کی امریکی حکام سے متواتر ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ تاثر ہمیں بہت اعتماد کے ساتھ یہ دیا گیا کہ معاملات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ مگر امریکی مطالبے پر ہمیں FATF کی واچ لسٹ پر ڈال دیا گیا تھا اور اب وہاں سے مزید مخاصمانہ پیغامات آنا شروع ہوگئے ہیں۔ فی الفور میری پریشانی کی اصل وجہ مگر وزیر اعظم پاکستان کی امریکی نائب صدر سے ملاقات کے بارے میں اپنائی پر اسرار خاموشی ہے۔ ان کی یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے اور بدگمانیوں کے اس موسم میں یہ ہمارے لئے خیر کی خبر نہیں۔