1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. یہ تو ہو گیا۔ اب کیا؟

یہ تو ہو گیا۔ اب کیا؟

جمعرات کی صبح حسب معمول یہ کالم لکھنے کے لئے میز کے سامنے بیٹھ کر قلم اُٹھایا تو ذہن مائوف ہوگیا۔ بہت دنوں سے سوچ رکھا تھا کہ اپنے قارئین کو قرۃ العین حیدر کی یاد دلائی جائے۔کئی بار لکھ چکا ہوں کہ کراچی میں 80ء کی دہائی سے آج تک جو دیکھنے میں آرہا ہے،اسے 1960ء کے آغاز ہی میں بھرپور قوتِ مشاہدہ سے مالا مال اس لکھاری نے ’’ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ کے عنوان سے لکھے ایک ناولٹ میں بیان کردیا تھا۔

چند روز قبل جب نریندر مود ی نے یوپی کی صوبائی اسمبلی میں اپنی جماعت کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد ادتیاناتھ نام کے ’’یوگی‘‘ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لئے نامزد کیا تو کئی لوگوں کی طرح میں بھی ہکا بکارہ گیا۔انٹرنیٹ پر کئی گھنٹے گزارنے کے بعد گورکھ پور سے اُٹھے اس کردار کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی کوشش بھی کی۔اس مشق سے گزرتے ہوئے میں نے کہیں یہ بھی پڑھاکہ ادتیاناتھ نے مسلمانوں کے ایک قبرستان میں کئی برسوں سے موجود پیپل کے ایک گھنے درخت کے نیچے اپنا ڈیرہ جماکر یوپی میں ’’قبرستان اور شمشان‘‘ کے مابین فرق کو اجاگر کرتے ہوئے مسلمانوں سے نفرت کو بڑھاوا دینے کی تحریک کا علامتی آغاز کیا تھا۔

پیپل کے درخت کو ہندو انتہاء پسندی کی علامت کے طورپر استعمال کرنے والے اس واقعے نے میرے ذہن میں یہ بات جگائی کہ میں نے اس درخت کا ایسا ہی استعمال شاید کسی ناول میں پہلے سے پڑھ رکھا ہے۔بہت دنوں تک مگر طے نہ کرپایا کہ وہ کونسا ناول تھا۔خیال چونکہ ذہن میں آچکا تھا،اس لئے اس سے چھٹکارا پانا بہت مشکل ہوگیا۔مکمل فراغت کے لمحات میں جب بھی بستر پر کروٹیں لیتا تو’’کونسے ناول میں پڑھاتھا؟‘‘والا سوال ذہن کو پریشان کئے رکھتا۔گزشتہ ہفتے کی رات 2بجے اچانک آنکھ کھلی تو یاد آگیا کہ پیپل کے درخت کو ہندو مسلم فساد کی وجہ بنانے کا تذکرہ قرۃ العین حیدر کے ایک ناول میں ہوا تھا۔ان کے متعدد ناولوں کی کہانی اور کردار یاد کرتے ہوئے بالآخر یاد آگیا کہ اس ناول کا نام’’چاندنی بیگم‘‘ تھا۔قرۃ العین حیدر کا لکھا شاید یہ آخری ناول ہے۔ میرے گھر میں موجود اس کی جلد کے افتتاحی صفحات میں اس کی اشاعت کا سال 1990ء بیان کیا گیا ہے۔

اس ناول کا Locale لکھنؤ کے نواح میں موجود ایک وسیع وعریض کوٹھی ہے۔ندی کے کنارے بنی یہ کوٹھی شہر کے ایک مشہور اور کامیاب وکیل شیخ اظہر علی کو اپنے دادا سے ترکے کی صورت ملی تھی۔اس کوٹھی کے مکینوں کی خدمت کے لئے ان دنوں کی روایات کے مطابق بہت سارے ملازمین بھی تھے۔ان کی اکثریت شیخ اظہر علی کے ملکیتی گائوں سے آئی تھی۔انہیں نماز کی سہولت بہم پہنچانے کے لئے ’’شاگرد پیشہ‘‘اور غسل خانوں کے درمیان ایک چبوترہ بنادیا گیا تھا۔

شیخ اظہر علی کا سب سے بااعتماد مصاحب مگر اس کا منشی تھا۔بھوانی شنکر جس کا نا م تھا۔ذات کا کائستھ تھا جو اُردو اور فارسی زبانوں سے بھی خوب آشنا ہوا کرتے تھے۔یہ منشی انتہائی وفادار اور ایمان دار تھا۔خود کو اس گھر کا ایک اہم فرد بھی سمجھتا۔فرصت کے اوقات میں شاعری کرتا اور تخلص اس کا ’’سوختہ‘‘تھا،سوختہؔ مگر اپنے مذہبی شعائر کا بھی بہت پابند تھا۔علی الصبح اُٹھ کر دریا کنارے جاکر اشنان کرتا۔اس کوٹھی سے ملحقہ امرودوں کے باغ میں ایک پیپل کا درخت بھی تھا۔اس درخت کے نیچے اس نے اپنے لئے ایک جبوترہ نما جگہ بنائی ہوئی تھی جہاں کچھ مورتیاں بھی رکھ دی گئیں۔اشنان کرنے کے بعد ’’سوختہ‘‘ اسی درخت کے نیچے آکر سورج کی طرف منہ کرکے پوجاپاٹ میں مصروف ہوجاتا۔

ناول کی کہانی ٹھہرائو،سکون اور اطمینان کی علامت نظر آتے اس گھرانے کے مختلف کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔اختتام اس کا مگر بہت بھیانک ہے کیونکہ ایک رات موم بتی کے لحاف پر گرنے کی وجہ سے یہ کوٹھی اور اس میں موجود تمام افراد جل کر بھسم ہوجاتے ہیں۔سب کچھ جل جانے کے بعد بھی لیکن نماز کے لئے بنایا چبوترہ اور پیپل کے نیچے قائم ’’مندر‘‘ اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔اس علاقے کے ہندو اور مسلمان ان دنوں کے بچائو کو ’’معجزہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔دلچسپی ان کی مگر ’مسجد‘‘ میں نہیں اور نہ ہی ’’مندر‘‘ سے کسی کا کوئی لینا دینا۔ اصل مقصد جل کر ویران ہوئے ایک وسیع شہری رقبے پر ’’مسجد‘‘ اور ’’مندر‘‘ کے نام پر قبضہ جمانا ہے۔بابری مسجد کی طرح یہ قضیہ ناول کے اختتام تک برقرار رہتا ہے۔

میںنے’’چاندنی بیگم‘‘ کو ایک بار پھر غور سے پڑھا ہے۔سوچ رکھا تھا کہ اسے پڑھ کر جو محسوس کیا اسے آپ کے سامنے رکھا جائے۔اس ناول کو یوپی کے حالیہ واقعات کے علاوہ ایک جماعت کے کئی برسوں سے لندن میں مقیم ’’بانی‘‘کے ایک بیان کی وجہ سے بھی زیر بحث لانا ضروری تھا۔اس بیان کے ذریعے اس ’’بانی‘‘ نے بھارتی وزیر اعظم سے شکوہ کیا ہے کہ اس نے یوپی سے پاکستان گئے لوگوں کو بھلادیا ہے۔’’بانی‘‘ کا یہ بیان میں نے اپنے فون پر موصول ہوئی ایک وڈیو کلپ پر دیکھا اور غم وغصے سے تلملااُٹھا۔

کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو ذہن میں خیالات کی جو ترتیب بنارکھی تھی اب قابو میں نہیں آرہی۔ہمارے اخبارات اور ٹی وی سکرینیں گزشتہ کئی دنوں سے اصرار کئے جارہے ہیں کہ پانامہ کا فیصلہ آنے ہی والا ہے۔اس فیصلے کے آجانے کے بعد پاکستان میں اس وقت سیاسی منظر نامے پر جو کچھ نظر آرہا ہے اس کا برقرار رہناناممکن ہوجائے گا۔حیرتوں کے کئی درکھل جائیں گے۔اس سوچ نے ذہن کو مائوف کردیا ہے کہ ممکنہ طورپر بلاانگیز تبدیلیوں کے آغاز کے بہت قریب میں 1990ء میں قرۃ العین حیدر کے لکھے ایک ناول کا ذکر چھیڑبیٹھوں تو اسے پڑھنے کی مہلت کسی کے پاس بھی نہیں ہوگی۔بہتر یہی ہے کہ ماضی سے جڑے قصوں کو بھول کر اس نئے ڈرامے کو دیکھنے کی تیاری کی جائے جو ہماری صحافت کے جید ناموں کے بقول پانامہ کے بارے میں فیصلہ آنے کے ساتھ ہی شروع ہوجائے گا۔

اپنے مائوف ذہن کااعتراف کرنے کے بعد آپ سے اجازت طلب کرنے سے پہلے البتہ یہ بھی یاد دلادوں کہ ’’چاندنی بیگم‘‘کا ایک کردار ’’وکی میاں‘‘بھی ہے۔موصوف ذہنی اعتبار سے ’’کھسکے‘‘ہوئے سمجھے جاتے ہیں۔ناول کے ایک مقام پر موصوف اعلان کرتے ہیں کہ بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے اپنی قبر پر لگے پتھر پر کندہ کرنے کے لئے الفاظ طے کرلئے ہیں۔وہ الفاظ تھے ’’یہ تو ہوگیا۔اب کیا؟‘‘ آپ بھی تیار ہوجائیں۔ یہ سوچنے کے لئے کہ ’’پانامہ تو ہوگیا۔اب کیا ؟!‘‘