1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پروفیسر رفعت مظہر/
  4. میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟

پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ زورآوروں کے رحم وکرم پررہی۔ یوں تو ذوالفقارعلی بھٹو سے لے کر میاں نوازشریف تک جمہوری حکمرانوں نے حقیقی جمہوریت کی خاطر پھانسی کے پھندے کو بھی چوما اور جلاوطنی کا دُکھ بھی جھیلالیکن قوم بہارآفریں گل و ثمر سے محروم ہی رہی۔

قوم بھولی نہیں کہ جب ڈی چوک اسلام آباد میں بجلی کے بِل جلائے گئے تب فی یونٹ بجلی 4 روپے تھی۔ میاں نوازشریف کی مقبولیت فوج کو کبھی قبول نہ تھی کیونکہ وہ اصولوں پر ڈٹ جانے والے شخص ہیں۔ پھر ایک گریٹ گیم رچائی گئی جس میں اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ اُس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثارنے بھرپور حصہ لیا۔ جب پاناماکا غلغلہ اُٹھا تو باوجودیکہ میاں نوازشریف کا پاناماپیپرز میں کہیں نام نہیں تھااُنہیں گھیرگھار کے کٹہرے میں کھڑا کر دیاگیا۔

آج سپریم کورٹ کے ہم خیال بنچ کا گلی گلی میں شورہے لیکن اصل ہم خیال بنچ تو وہ تھا جس نے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں میاں صاحب کو نااہل قراردیا۔ اِس بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعیدکھوسہ تھے اور جسٹس اعجاز افضل خاں، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس شیخ عظمت سعید رُکن تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزاراحمد بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید ریٹائرمنٹ کے بعد شوکت خانم کینسرہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے رُکن منتخب ہوئے۔ اِسی بنچ نے JIT بنانے کا حکم دیا جس کا نگران جسٹس اعجازالاحسن کو مقرر کیاگیا۔ شاید یہ تاریخِ عدل کی واحد JIT ہو جس کا نگران جج بھی مقرر کیاگیا۔۔

بعدازاں چیف جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں میاں نوازشریف کی نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کے لیے ایک پانچ رُکنی بنچ تشکیل دیاگیا جس کے موجودہ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال رُکن تھے۔ اِس بنچ نے میاں نوازشریف کو تاحیات نااہل قراردیا اور یہ فیصلہ جسٹس عمرعطاء بندیال نے لکھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ عقیل وفہیم صاحبانِ نظر اگر اِس سیاہ باب کو موجودہ ملکی حالات پر منطبق کرکے دیکھیں تو اُن پر نہ صرف سب کچھ عیاں ہوجائے گا بلکہ وہ ہاتھ تلاش کرنے میں بھی آسانی ہوگی جن کی بدولت ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ کر دَردَر کا بھکاری بننا پڑا۔

کوئی حقائق سے نظریں چرائے تو الگ بات ہے لیکن حقیقت یہی کہ 2013ء سے 2018ء تک نوازشریف کے دَور میں ملک تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہاتھا۔ اُس وقت GDP کی شرحِ نمو 5.8 فیصد تھی اور بین الاقوامی سرویز کے مطابق پاکستان دنیا کی تیزترین بڑھتی معیشت میں شامل ہورہا تھا۔ دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیاگیا جس سے تحریکِ طالبان پاکستان کو جڑسے اُکھاڑا گیا۔

یہی وہ دَورہے جب (2015ء) چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اُنہوں نے نہ صرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا بلکہ 46 ارب ڈالر کی لاگت سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کا اعلان بھی کیا۔ اِسی دَورمیں IMF کو خُداحافظ کہا گیا۔ یہی وہ دَور ہے جب موٹرویز، اوورہیڈز، انڈرپاسز اور سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور لاہور اورنج لائن اور لاہور میٹروبس جیسے منصوبے پایہئ تکمیل کو پہنچے۔ سب سے بڑھ کر لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کیاگیا۔

2017ء میں جب میاں نوازشریف کو نکالا گیا اُس وقت تک ایک متوسط گھرانے کا بجلی کا بِل تین، چار ہزار روپے ماہانہ سے زائد نہیں آتاتھا کیونکہ سستی توانائی کی فراہمی حکومت کی ترجیحات میں شامل تھی اور پَن بجلی، کوئلہ، ایل این جی کے علاوہ شمسی توانائی سے بجلی پیدا ہورہی تھی۔ آج وہی بجلی کا بِل اتنا بڑھ چکا جسے دیکھ کر سارا پاکستان سڑکوں پر ماتم کناں اور لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور۔

تسلیم کہ مہنگائی کی لہر بین الاقوامی ہے اور پچھلے ساڑھے تین سالہ دَورِحکومت کی حماقتوں کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی اپنی ساری حدیں توڑچکی۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر بجلی52 روپے فی یونٹ ہوچکی تو قوم طوہاََ وکرہاََ یہ بِل ادا کرنے کو تیار ہے مگر جن آٹھ، نَو قسم کے ٹیکسز کو اِن بلوں میں شامل کیا جاتاہے، وہ کیوں؟ میرا اِس ماہ کا بجلی کا بِل 80ہزار 920 روپے آیاہے۔ اِس بِل میں 51 ہزار 126 روپے صرف شدہ یونٹس کے ہیں اور 29 ہزار 794 روپے ٹیکسز کے۔

بتایا جائے کہ جب ہم بجلی کی پوری قیمت ادا کر رہے ہیں تو پھر اِس قیمت کے علاوہ "بھتّہ" کیوں؟ پچھلے ڈیڑھ سال میں بجلی کی قیمتوں میں 80 فیصد تک اضافہ ہوچکا۔ اِس اضافے کی بنیادی وجہ پاورسیکٹر کے ٹرانسمیشن اورڈسٹری بیوشن نقصانات ہیں جو بڑھ کر 520 ارب 30 کروڑ روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ صریحاََ ناانصافی ہے کہ کرے کوئی، بھرے کوئی۔ یہ نااہلی تو حکمرانوں کی ہے جو اِن نقصانات پر قابو پانے میں ناکام لیکن "نزلہ بَر عضوِ ضعیف می ریزد" کے مصداق یہ تمام رقم متوسط اور غریب طبقے کا خون نچوڑکر حاصل کی جا رہی ہے۔

صرف واپڈا ملازمین نے گزشتہ سال 8 ارب 19 کروڑ روپے کی مفت بجلی استعمال کی۔ وہ سرکاری ملازمین جنہیں بیشمار سہولیات میسر ہیں اُن کے لیے بھی سالانہ 34 کروڑ یونٹس مفت مختص کیے گئے ہیں۔ اِن میں اعلیٰ عدلیہ کے وہ ججز بھی شامل ہیں جنہیں قومی خزانے سے ماہانہ 15 لاکھ تک تنخواہ اور بجلی سمیت دیگر تمام سہولیات مفت ملتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ریٹائرمنٹ پر لگ بھگ 10 لاکھ پنشن اور 2000 یونٹس فری بجلی سے مستفید ہوتے ہیں۔

اگر معیشت کا پہیہ چل رہاہو اور ملک تیزی سے خوشحالی کی طرف گامزن ہو تو ایسے اللّے تللے قابلِ برداشت لیکن جہاں ملک ڈیفالٹ کے کنارے پراور لوگ خودکشیوں پر مجبور وہاں جُزوقتی ہی سہی یہ تمام سہولیات واپس لی جانی چاہییں کیونکہ یہ ملک جتنا ہماراہے اُتنا ہی عدلیہ، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے۔ ہم سب نے مل جُل کر ہی دھرتی ماں کو بچانااور اِس کی حفاظت کرنی ہے۔

یہاں آئی پی پیز کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے جن کے ساتھ مہنگے معاہدے کیے گئے اور مالکان نے ڈالروں میں ادائیگی کی شرط رکھی۔ اب جوں جوں ڈالر کے ریٹس بڑھتے ہیں، ادائیگی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اِس معاہدے میں یہ ظالمانہ شرط بھی موجود ہے کہ حکومت کو بجلی کی ضرورت ہو نہ ہو اُن سے بجلی خریدی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کپیسٹی چارجز کی مَدمیں آئی پی پیز 1300 ارب سالانہ ادا کیے گئے۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جنہیں صرف اپنے منافع سے غرض ہے، پاکستان سے نہیں۔ جب تک اِن سے جان نہیں چھڑائی جاتی بجلی مزید مہنگی ہوتی چلی جائے گی۔

میں یہاں اپنی حدیں توڑتی پٹرولیم مصنوعات کا ذکر نہیں کررہی اور نہ ہی گیس کی بڑھتی قیمتوں کا۔ اِن سب کو ملاکر جو نقشہ ترتیب پاتاہے اُس کے مطابق تو سوائے خودکشی کے کوئی چارہ نہیں۔ جب یہ سارے مل کے ملک کو نوچ کھانے کے دَرپے ہوں تو پھر میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟