1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. پروفیسر رفعت مظہر/
  4. تاریخ درست کر لیں

تاریخ درست کر لیں

اہلِ وطن جانتے ہیں کہ یومِ پاکستان اور یومِ آزادی ایسے قومی تہوار ہیں جن کے عقب میں جدوجہدِ آزادی کی طویل تاریخ پنہاں ہے۔ یوں تو ہم نے مطالعہ پاکستان کو بطور مضمون درسی کُتب میں شامل کر دیا لیکن "حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا"۔ محض امتحان میں کامیابی کے لیے تاریخِ پاکستان کا مطالعہ کرنے والے طلبہ وطالبات کیا جانیں کہ زمین کا یہ ٹکڑا کتنی قربانیوں کی بعد معرضِ وجود میں آیا۔ اُنہیں کیا معلوم کہ آگ اور خون کے دریا عبور کرتے ہوئے کتنی سہاگنوں کے سہاگ لُٹے، کتنی ماؤں کے جگرگوشے شہید ہوئے، کتنے شیرخوار بچوں کو نیزوں میں پرویا گیا، کتنی بیٹیوں کے سروں سے ردائیں چھین لی گئیں اور کتنے بوڑھوں کی لاٹھیاں ٹوٹیں۔ بہت سے نوجوان تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یومِ پاکستان کیا ہے اور یومِ آزادی کیا کیونکہ لگ بھگ تین کروڑ بچوں نے تو سکولوں کا مُنہ ہی نہیں دیکھا۔ اُنہیں علم ہے تو بس اتنا کہ اِن قومی تہواروں پہ میلوں کا سا سماں ہوتا ہے، پرچم لہرائے جاتے ہیں، ملّی نغمے گائے جاتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور قومی رَہنماؤں کے پیغامات نشر ہوتے ہیں۔ جونہی یہ ایام اپنے اختتام کو پہنچتے ہیں نَونہالانِ وطن سارے جذبے بھلا کر اپنی راہوں پہ لوٹ جاتے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ اِن قومی تہواروں کو پورے تزک واحتشام سے منایا نہ جائے کیونکہ وہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں جو اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھول جاتی ہیں۔ ہماری تو فقط اتنی گزارش ہے کہ یہ تہوار اپنی اصل روح کے ساتھ منائے جائیں تاکہ نسلِ نَو آزادی جیسی نعمت سے روشناس ہو سکے۔ یہاں عالم مگر یہ کہ ہم اپنی تاریخ بھی درست نہیں کر سکے۔ 23 مارچ کو یومِ پاکستان منایا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ کہ 22 سے 24 مارچ 1940ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کا منٹو پارک لاہور میں 3 روزہ سالانہ اجلاس ہوا۔ اجلاس کے اختتام پر 24 مارچ کو وہ تاریخی قرارداد منظور ہوئی جسے پہلے قراردادِ لاہور اور بعد میں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا۔ مینارِ پاکستان اُسی قرارداد کی یادگار ہے۔ اب اگر تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو یومِ پاکستان کی تاریخ 24 مارچ ہے نہ کہ 23۔ ہم بھلے 23 مارچ کو ہی یومِ پاکستان کی تقریبات منائیں لیکن تاریخ کی درستی کے لیے نسلِ نَو کو اِس کا علم تو ہونا چاہیے۔

یہی صورتِ حال یومِ آزادی کی ہے۔ تاریخی حوالوں سے مسلم الثبوت کہ وطنِ عزیز 15 اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آیا۔ ہم بچپن سے سن رہے ہیں کہ پاکستان جمعہ 14 اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آیا اوروہ 27 رمضان کا مبارک دن تھا۔ حقیقت مگر یہ کہ 14 اگست کو جمعرات تھی اور رمضان المبارک کی 26تاریخ جبکہ 15 اگست کو جمعہ کا دن تھا اور 27 رمضان المبارک۔ اِس لحاظ سے یہ بالکل درست ہے کہ پاکستان 27 رمضان المبارک کو معرضِ وجود میں آیا لیکن وہ تاریخ 14 نہیں 15 اگست تھی۔ 14 اگست 1947ء کو آخری وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کراچی میں پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا "آج میں آپ سے آپ کے وائسرائے کی حیثیت سے آخری خطاب کر رہا ہوں۔ کل 2 نئی خودمختار ریاستیں دولتِ مشترکہ میں شامل ہوں گی۔ کل پاکستان کی حکومت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ میں ہوگی"۔ جب گھڑیال نے رات 12 بجے 15 اگست کا اعلان کیا تواِس کے فوری بعد ریڈیو پر آواز گونجی "یہ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس ہے"۔ یہ اعلان انگلش میں ظہور آذر اور اُردو میں مصطفےٰ علی ہمدانی نے کیا۔ 15 اگست کو صبح.30 8 بجے قائدِاعظمؒ کا انگریزی میں ریکارڈ شدہ پیغام نشر ہوا۔ اُنہوں نے فرمایا "بے پایاں مسرت اور احساس کے جذبات کے ساتھ میں آپ کو تہنیت کا پیغام دیتا ہوں۔ 15 اگست آزاد وخودمختار پاکستان کی پیدائش کا دن ہے۔ یہ مسلم قوم کی منزلِ مقصود کی علامت ہے جس نے پچھلے چند برسوں میں اپنے وطن کے حصول کے لیے عظیم قربانیاں پیش کیں "۔

آزادی کے تقریباََ 11 ماہ بعدیومِ آزادی کے حوالے سے شائع ہونے والے ڈاک ٹکٹوں پر بھی 15 اگست 1947ء ہی کی تاریخ درج ہوئی۔ 19 دسمبر 1947ء کو محکمہ داخلہ نے 1948ء کے لیے جن سالانہ تعطیلات کا اعلان کیا اُن میں یومِ آزادی کی تعطیل 15 اگست درج تھی۔ اُن دنوں کسی کو کوئی ابہام نہیں تھاکہ پاکستان کی آزادی کی تاریخ کون سی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان کا یومِ آزادی 15 اگست کو منانے کی بجائے 14 اگست کی تجویز 29 جون 1948ء کو وزیرِاعظم لیاقت علی خاں کی صدارت میں کابینہ کے اجلاس میں پیش کی گئی۔ یہ تجویز قائدِاعظم کی منظوری سے مشروط تھی۔ دستاویز کے مطابق قائدِاعظم نے 14 اگست کو یومِ آزادی منانے کی منظوری دے دی تھی۔ تب سے اب تک ہم 14 اگست کو ہی یومِ آزادی مناتے چلے آرہے ہیں۔ پاکستان کا یومِ آزادی 14 اگست کو منایا جائے یا 15 اگست کو، اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا البتہ تاریخ کی درستی کے لیے یہ ضروری ہے کہ نسلِ نَو کو اول تو اِس سے آگاہی ہونی چاہیے اور دوسرے یہ قومی دن اپنی اصل روح کے مطابق منائیں۔

یومِ آزادی پر ہم پورے جوش وجذبے سے وطن کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے، ملّی نغمے گاتے اور تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ پاکستان کی فضائیں "اے قائدِاعظم تیرا احسان ہے احسان" جیسے نغموں سے گونجتی رہتی ہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بانیئ پاکستان کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ ہم تو آج تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر پائے کہ قائدِاعظم اسلامی پاکستان چاہتے تھے یا سیکولر؟ اگر کسی سیکولر سے بات کی جائے تو وہ قائدِاعظم کے 11 اگست 1947ء کے خطاب کو بنیاد بنا کر پاکستان کو سیکولر سٹیٹ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گا۔ 11 اگست کے خطاب کی اصل روح مذہبی آزادی اور رواداری تھی سیکولر سٹیٹ نہیں۔ قائدِاعظم کے افکاروخیالات کبھی بھی سیکولرازم کی طرف مائل نہیں رہے۔ اُن کے مدّ ِنظر ایک اسلامی جمہوری مملکت تھی جس کے لیے اُنہوں نے تگ ودَو کی۔ اُنہوں نے اپنے بے شمار خطبات میں قُرآن مجید کو اپنا رَہنماء قرار دیا۔ جو شخص یہ کہے کہ ہمیں اسلام کی تجربہ گاہ کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا چاہیے، اُس کے افکار کو سیکولرازم سے جوڑنا انتہا درجے کی بددیانتی ہے۔ نظریہ پاکستان کی بنیاد ہی ایک الگ اسلامی مملکت تھی۔ اگر ایک سیکولرسٹیٹ ہی چاہیے تھی تو پھر علیحدہ وطن کی تگ ودَو کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پھر ہم بھارت کے ساتھ ہی جُڑے رہتے جو آج بھی ایک سیکولر سٹیٹ ہے۔

سُلگتا ہواسوال تو یہ ہے کہ کیا ہم نے بانیئ پاکستان کے مقرر کردہ اصولوں کو مدِنظر رکھا؟ کیا ہم نے اقبالؒ کے خواب کی تکمیل کی؟ کیا ہم پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست میں ڈھال سکے؟ جس ملک میں لگ بھگ37 سالوں تک آمریت کے گہرے سائے مسلط رہے ہوں اُسے اسلامی جمہوریہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ ویسے ہم پر جو جمہوری حکمران مسلط ہوئے یا کیے گئے، اُن کی سوچیں بھی ہمیشہ آمرانہ ہی رہیں اور تحقیق کہ جمہوری آمریت طالع آزماؤں کی آمریت سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ قائدِاعظم تو ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں قانون کی حکمرانی، عدل کی فراوانی اور جمہور کی جہاں بانی ہو۔ جہاں کرپشن نہ ہو، تعلیم عام ہو اور اظہارِ رائے کی آزادی ہو۔ جہاں فرقہ واریت نہ ہو، مذہبی تشدد نہ ہو اور حکومت جمہور کے حقوق کی محافظ ہو۔ حقیقت یہ کہ ہمارے ہاں جو حکمران بھی مسلط ہوا اپنی ذات کے گنبد میں ہی گم رہا۔ پچھلے سات عشروں سے کسی نے ملک وقوم کی بھلائی کا سوچا نہ اب کوئی سوچ رہا ہے۔ آگ اور خون کے دریا سے گزر کر اور لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر ہم نے کیا پایا، یہ ایک سُلگتا ہوا سوال ہے جس کا جواب اونچے ایوانوں میں براجمان بزعمِ خویش رَہنماؤں کے پاس تو ہرگز نہیں البتہ شاید نسلِ نَو ہی اِس سوال کا جواب ڈھونڈ پائے۔