1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. رضوان خان/
  4. غیر سنجیدہ نوجوانوں سے التجاء

غیر سنجیدہ نوجوانوں سے التجاء

نوجوان کسی بھی ملک کے مستقبل کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اور مستقبل کا دارومدار انہی نوجوانوں پہ ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے نوجوانوں کی آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا شمار دنیا کے چند ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں 30 برس کی عمر سے کم افراد کی تعداد 64 فیصد یا زیادہ ہے۔ پاکستان کی کل آبادی میں سے 64 فیصد کی عمر 30 برس سے کم ہے جبکہ 29 فیصد کی عمر 15 سے 29 کے درمیان ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ پاکستان ایک تابناک مستقبل کا منتظر ہے۔ عالم اسلام میں بھی مسلمان نوجوانوں کی تعداد صرف پاکستان میں ہی زیادہ ہے افغانستان فیصد کے اعتبار سے آگے ہے لیکن ان کی آبادی لگ بھگ چار کروڑ ہے۔ پاکستان کے مستقبل کا دارومدار انہی نوجوانوں پر ہے اور انھیں پاکستان کو سنبھالنا ہے اور پاکستان کو ایک بہترین اسلامی مملکت بنانے کے لیے ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔ لیکن اس کے لیے سنجیدگی نہایت اہمیت کی حامل ہے اور پاکستانی نوجوان کا سنجیدہ ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 14 اگست کو جب پوری قوم پاکستان کی 71 ویں سالگرہ خوشیاں رہی تھی اس دن نوجوانوں کا رویہ میرے نزدیک انتہائی تشویشناک تھا۔ اس دن جب پاکستان کے بننے کے مقصد کے بارے میں بات کرنی چاہیے تھی اور اس کے مستقبل کے بارے میں بات کرنی چاہیے تھی۔ اور پاکستان پس منظر کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ اس دن ہمارے نوجوان موٹر سائیکلوں پر جھنڈے لگا کر اور موٹر سائیکل کے سلنسر نکال کر گھوم رہے تھے۔ ایک طرف تو وہ اپنے ملک سے محبت کا اظہار کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف وہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو اذیت سے دوچار کر رہے تھے۔ اسی طرح میں نے نوجوانوں کو بھارتی گانوں پر اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اور ناچتے ہوئے دیکھا بہت سوں کو کیک کاٹتے ہوئے بھی دیکھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہونا چاہیے! اور اگر ان سے یعنی کیک کاٹنے والوں، موٹر سائیکلوں پر مارچ کرنے والوں اور ناچنے والوں سے پوچھا جائے کہ چودہ اگست کو کیا ہوا تھا تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ پاکستان بنا تھا یا آزاد ہوا تھا اس کے علاوہ انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ یہ الفاظ آپ کسی نوجوان سے نہیں سنیں گے کہ اس دن ایک خواب کی تکمیل ہوئی تھی۔ اس دن ظلمتوں کا سورج غروب ہوا تھا۔ اس دن ایک ایسا ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تھا جسکی بنیاد ایک نظریہ اسلام پر تھی۔ اس دن مدینہ کے طرز کی ریاست نے جنم لیا۔ اس دن لاکھوں لوگوں کے خون کے نذرانے سے مسلمان غلامی سے نجات پا گئے تھے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جنہیں ہر پاکستانی خصوصاً نوجوانوں کی زبان پر ہونا چاہیے۔ مگر ان کو کیا معلوم کہ اس ملک کو حاصل کرنے کے لئے کتنے لوگوں کو قتل کیا گیا۔ طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں کتنی بہنوں کی عزتیں نیلام ہوئیں کتنی ماؤں کے سامنے ان کے بچوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیا گیا اور کتنوں کو ایسے قتل کیا گیا جس طرح ایک کھیت سے فصل کاٹی جاتی ہے۔ کتنے لوگوں نے اپنا گھر بار، اپنی زمینیں، جائیداد غرض یہ کہ سب کچھ چھوڑ دیا صرف پاکستان کے لئے یہی وہ پاکستان ہے جس کے لیے ان لوگوں نے اتنی سختیاں برداشت کیں۔ اس ظلم کی پوری روداد لکھنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ تحریر لکھنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں شعور پیدا ہو کہ پاکستان ہمیں کسی نے طشتری میں رکھ کر یا گفٹ نہیں کیا تھا۔ اور یہ اس لیے نہیں بنا تھا کہ ہم اس میں ناچیں اور اسلامی اقدار کو بھول جائیں اور اس ملک کے حاصل کرنے کے مقصد کو بھول جائیں۔ میری اپنے نوجوانوں سے التجا ہے کہ خدارا خدارا سنجیدہ ہو جائیں اور پاکستان بننے کے مقصد کو سمجھیں اس پر عمل کریں تاکہ ہمارا ملک ایک با وقار ملک بن جائے اور ہمارا مستقبل تابناک بن جائے! بقول اقبال

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد