1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. رضوان خان/
  4. مسلمانوں کا علمی عروج و زوال

مسلمانوں کا علمی عروج و زوال

ایک وقت تھا جب مشہور تھا کہ اگر علم حاصل کرنا ہے تو مسلمانوں کے پاس جاؤ اس وقت مسلمان علم کی دنیا میں باقی دنیا سے بہت آگے تھے۔ علم کے حوالے سے جو شہر سب سے زیادہ مشہور تھا وہ بغداد شہر تھا، اس شہر کی تاریخ 800 صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے لیکن اس میں لوگ پہلے سے آباد تھے۔ اسی شہر میں مسلمانوں کے کئی سائنسدانوں نے ایسی ایسی چیزیں دریافت کیں جن کے بغیر جدید سائنس کا وجود شائد بالکل نہ ہوتا۔ مثال کے طور پر جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد مسلمان سائنسدانوں نے رکھی خصوصاً بو علی ابن سینا کا کردار اس میں بہت اہم تھا۔ یہ مسلمانوں کا سنہری دور تھا اور یہ دور تقریبا چار سو سال تک جاری رہا۔ بارہ سو آٹھ میں منگول افواج نے ہلاکو خان کی سربراہی میں بغداد شہر پر حملہ کر دیا یہ حملہ مسلمانوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔ لاکھوں لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا بيت الحكمہ، جو بے شمار قیمتی تاریخی دستاویزات اور طب سے لیکر علم فلکیات تک کے موضوعات پرلكھی گئی کتب كا گھر تھا کو تباہ کر ڈالا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے کہا کہ دریائے دجلہ کا پانی ان کتب كی سیاہی کے ساتھ سیاہ پڑ گیا جو بہت زیادہ تعداد میں دریا میں پھینک دى گئی تھیں۔ نہ صرف یہ مگر کئی دنوں تک اس کا پانی سائنسدانوں اور فلسفیوں کے خون سے سرخ رہا۔ اس تباہی کے بعد مسلمان کبھی علم کی دنیا میں آگے نہ نکل سکے۔ بلاشبہ اس کے بعد بھی چند عظیم مسلمان سائنسدانوں نے جنم لیا جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی شامل ہیں۔

مسلمان سائنسدانوں کی کتابیں جو حملے میں بچ گئیں تھیں آج وہ کتابیں یورپ کی یونیورسٹیز میں پڑی ہیں اور پڑھائی جاتی ہیں۔

بدقسمتی سے آج کے دور میں"کسی اور مسلمان ملک کی بات تو میں نہیں کر سکتا لیکن اپنے ملک پاکستان کے بارے میں ضرور کر سکتا ہوں" پاکستان کے تعلیمی نظام میں انگریز سائنسدانوں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا جاتا ہے۔ لیکن مسلمان سائنسدانوں کے بارے میں ذکر نہیں کیا جاتا اگر کیا بھی جائے تو تفصیل سے کچھ نہیں لکھا جاتا جو کہ ایک المیہ سے کم نہیں۔ اور اس طرح پاکستانی طلباء یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ سب کچھ گورے ہی کر سکتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان کی ترقی نہ کرنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اہم عہدوں پر نااہل لوگ تعینات ہوتے ہیں جس کی وجہ پاکستان میں کیرئیر کونسلنگ کا نہ ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے بچے ایسی فیلڈز میں چلے جاتے ہیں جو ان کی بس کی بات نہیں ہوتی۔ پاکستان میں کیریئر کاؤنسلنگ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے با صلاحیت بچے نا پڑھ پاتے ہیں اورنہ اچھی جگہ (جہاں ان کو ہونا چاہیے) نوکری حاصل کر پاتے ہیں اور نااہل لوگ اہم عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ جس کا براہ راست نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑتا ہے۔ میری نئے وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ پاکستان کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے کیرئیر کونسلنگ شروع کی جائے اور باصلاحیت نوجوانوں کو خواہ غریب طبقے سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں کو اوپر لایا جائے تاکہ پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کرسکیں۔ امید ہے کہ نئے وزیراعظم عمران خان موثر اقدامات اٹھا کر پاکستان کو ایک مضبوط اسلامی ریاست بنائیں گے۔ انشاءاللہ