1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید علی ضامن نقوی/
  4. سیاست کی انتہاؤں کا مسافر

سیاست کی انتہاؤں کا مسافر

خان صاحب کی سیاست انتہاؤں سے عبارت ہے۔ یا تو آپ ان کے ساتھی ہیں اور یا ملک دشمن۔ خان صاحب کا دل ہے جس پر آ جائے، ایک ہی شخص و ادارہ کبھی محبوب تھا تو اس کے خلاف بات کرنے کو قابل تعزیر جرم قرار دلوایا۔ اور جب اس پر غصہ آ گیا تو پھر اسی ادارے اور اس ادارے کی محترم شخصیات کو نام لے کر اپنے چھٹے ہوئے ورکروں سے گالیاں پڑوائی گئیں۔

خان صاحب وہ نفسیاتی کیس ہیں جن کے نزدیک یا کوئی ان کا ہم خیال ہے اور نہیں تو اسے جینے کا ہی حق نہیں۔ نام بگاڑنا وہ اپنا جبلی حق سمجھتے ہیں۔ جس کسی پر کچھ بھی الزام لگا دیں اسکی انہیں خاص اجازت ہے۔

دنیا کو اگر کوئی سمجھتا ہے تو فقط وہ، دین کی فہم اگر ہوئی ہے تو فقط انہیں، سیاست صرف وہ جانتے ہیں۔ برطانیہ، یورپ، امریکہ، بھارت، روس، وسط ایشیائی ممالک، قبائلی و شمالی علاقے ان سب کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اسی اعلی و ارفع فہم کی بدولت کبھی آپ نے شیخ رشید کو چپراسی قرار دیا اور کبھی اپنا یار غار، کبھی متحدہ کو قاتل قرار دیا کبھی تہذیب یافتہ، کبھی گجراتیے چوہدری ڈاکو بنے اور کبھی آپ نے ان کے آگے زانو تلمذ طے کیے۔

مگر پھر بھی کسی بھی چیز کو جو خان صاحب قرار دے دیں آپ پر فرض ہے آپ اس کو ویسا ہی مانیں۔ ورنہ خان صاحب آپ کا جینا حرام کر دیں گے۔

ہم نے سیاسی تنظیمیں اور ورکر پہلے بھی دیکھے مگر جو سیاسی ورکر کلاس خان صاحب نے تشکیل دی ویسی نہ کبھی دیکھی نہ سنی۔ بڑے چھوٹے کی تفریق ختم، رشتے ناطے، ہمسائیگی، دفتری تعلق داری سب ختم اگر تو آپ خان کے فین ہیں تو ٹھیک ورنہ آپ اس قابل ہیں کہ آپ کو گالیوں سے نوازا جائے، آپکا جینا حرام کر دیا جائے۔

کیا کیجیے یہ وہ طرز سیاست ہے جو آج کی اس نسل نے خان صاحب سے سیکھی۔ کسی نے پوچھا خان صاحب نے ملکی سیاست کو کیا دیا ہمارا جواب تھا۔ اس معاشرے کو بری طرح تقسیم کر دیا۔ خاندان تقسیم، آپسی بول چال بند، سیاست پر آپسی بدتمیزیاں، رہی سہی کسی فیس بُک اور وٹس اپ نے پوری کر دی۔ نان سٹاپ گالیاں۔ خان صاھب نے اپنے ورکر کر سیاسی خود کش رویہ دیا۔

لیڈر قوم کو ایک بناتا ہے آپس میں خانہ جنگی نہیں کرواتا مگر پاکستان میں اسکو ایک خوبی کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ خدا ملک کی خیر کرے۔ آگے آگے دیکھیے اس تقسیم شدہ معاشرے میں خان صاحب آگے کس طرح مزید خلیج پیدا کرتے ہیں۔ پردہ اٹھنے کی مُتظر ہے نگاہ۔