1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید علی ضامن نقوی/
  4. شاعرِ آخر الزمان۔ جوش ملیح آبادی

شاعرِ آخر الزمان۔ جوش ملیح آبادی

کسی کا عہدِ جوانی میں پارسا ہونا

قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی

جوش نے یہ شعر کہہ کر در حقیقت اپنی سوانح حیات کا دیباچہ تحریر کر دیا۔

۵ دسمبر ۱۸۹۴ کو پیدا ہونے والے جوش کا اس سال ۱۲۴ واں جشنِ یومِ ولادت ہے۔ نواب بشیر احمد خان کے گھر پیدا ہونے والے شبیر حسن خان جن کے باپ پھر دادا نواب محمد احمد خان اور پردادا نواب فقیر محمد خان سبھی صاحبِ دیوان شعراء تھے نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا۔ مرزا ہادی رسوا سے عربی اور مولانا قدرت بیگ سے فارسی و اردو پڑھنے والے شبیر حسن خان کا میلانِ طبع شروع سے ادب کی جانب مائل تھا۔ شبیر حسن سے جوش ملیح آبادی تک کا سفر طے کرنے والے جوش نے اردو کا دامن اس عظیم انقلابی شاعری سے بھر دیا کہ دنیا نے انہیں شاعرِ انقلاب کے نام سے یاد رکھا۔ حبیب جالب سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں اردو کے عظیم شعراء کون کون سے گزرے ہیں تو کہا “میر و غالب و جوش”۔ یہ تھے جوش ملیح آبادی۔

تو جیسے بات اوپر جوش کی خود نوشت کے بارے میں ہو رہی تھی تو گزارش ہے کہ جوش کی سوانح ِ حیات 'یادوں کی بارات' ایسی کتاب ہے جسے پڑھ کر ہر ذوق کا شخص اپنے مطلب کا لطف لیتا ہے۔ انقلابی انقلاب کا درس پاتے ہیں اور اس کی پے در پے ناکامیوں کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ عاشق عشق کے مختلف رنگوں سے کھیلنا سیکھتے ہیں اور صاحبانِ ذوق کے لیے تو ایک سمندر ہے غوطہ زن ہونے کے لیے۔

اسی کتاب میں جوش عشق کے بارے میں اظہارِ رائے کرتے فرماتے ہیں کہ

''یہ سچ ہے کہ عشق فطرت کا بہت بڑا فریب ہے۔ جو اس لیے دیا جاتا ہے کہ انسان افزائشِ نسل کے توسط سے موت کے مقابلے میں حیات پیدا کرتا رہے۔ اپنے وجود میں کمی اور آبادی کے تن و توش میں اضافہ کرے۔ اپنی جوانی کھا لے اور فطرت کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھ کر پالے۔ اپنا جوہر گھٹائے اور دنیا کی رونق بڑھائے۔''

جوش کے ہاں محبت میں بے چارگی نہیں۔ عشق میں بھی انا کا سودا کرنا جوش کو منظور نہیں۔

ایک جگہ الگ ہی تیور میں آکر تبسم کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں

تبسم ہے وہ، ہونٹوں پر جو دل کا کام کر جائے

انہیں اس کی نہیں پرواہ، کوئی مرتا ہے مر جائے

اسی کے ساتھ اس کتاب میں نظریے کے علمبرداروں کو جس طور جوش نے بے نقاب کیا اور بتایا کہ جب خواب ٹوٹتے ہیں تو نظریے گلے کا پھندا بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو جلوت میں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ان کی خلوت کتنی منافقت سے ُپر ہوتی ہے، وہ جو لوگوں کو سنہرے دنوں کی آس دلاتے ہیں ان کا اصل مقصد اپنے بخت کی تیرگی دورکرنا ہوتا ہے پڑھنے کے لائق ہے۔

جوش صاحب کو منافقت سے نفرت تھے یہی وجہ تھی کہ جماعتِ اسلامی مارکہ میڈیا نے بحیثیتِ شاعر آپ کو وہ مقام نہ دیا جس کے وہ مستحق تھے۔ ورنہ جو الفاظ کی سلاست، انقلاب کی پیامبری، فصاحت و بلاغت کی شاہکار شاعری ہمیں جوش کے ہاں ملتی ہے قیامِ پاکستان کے بعد اس کا عشرِ عشیر بھی کسی دوسرے شاعر کے ہاں نظر نہیں آتی۔

جوش شروع میں اپنے سفرِ ذات میں تھے۔ اور خدا کی تلاش میں سرگرداں رہے جب انہوں نے کہا

ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے

رسول نہ بھی آتے تو صبح کافی تھے۔ ۔ !

تو ان پر الحاد اور کیمونسٹ ہونے کے فتوے لگائے گئے لیکن اسی جوش نے اپنا عقیدہ اس وقت دکھایا جب نامِ نامیِ محمد ص اورآلِ محمد ع آیا۔ اس وقت جوش ایک الگ رنگ میں دکھے وہ رنگ جس نے جوش کو اپنی پوری حقیقت کے ساتھ دنیا کے سامنے روشناس کیا۔ وہ جوش جو ملائیت کے خلاف ہے جو ہر طرح کی جبر اور استحصال کے خلاف ہے

وہی جوش جو دنیا کو بتاتا ہے کہ دین سیکھنے کے لیے حیاتِ محمد و آلِ محمد ص کافی ہے کسی مُلا کی چاکری سے بہتر ہے اس در سے زندگی کا سبق سیکھا جائے۔

ایک جگہ اسی نظریے کی ترویج کرتے کہتے ہیں۔

تاریخ دے رہی ہے یہ آواز دم بدم

دشت ثبات و عزم ہے دشت بلا و غم

صبر مسیح و جرات سقراط کی قسم

اس راہ میں ہے صرف ایک انسان کا قدم

جس کی رگوں میں آتش بدر و حنین ہے

جس سورما کا اسم گرامی حسین ع ہے

واقعہ کربلا کا بیان جسے مرثیہ نگاری کہتے ہیں اردو شاعری کے ماتھے کا جھومر ہے۔ بہت سے شعراء نے اس میدان میں طبع آزمائی کی کوشش کی۔ لیکن معدودے چند اس میدانِ پرُخار میں اپنا مقام بنا پائے۔ وہ میدان جو انیس و دبیر کے بعد سونا ہو گیا تھا اس میں جوش نے انقلابی مرثیے دے کر ایک روحِ تازہ پھونک دی۔ اور شاعری کو نئی جہتیں عطا کرتے ہوئے رفعتوں سے سرفراز کیا۔ ان کا مرثیہ حسین ع اور انقلاب اس دور کا نمائندہ مرثیہ کہے جانے کے لائق ہے۔

ایک جگہ کہتے ہیں۔

کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے

کربلا تخت کو تلوؤں سے مسل سکتی ہے

کربلا خار تو کیا آگ پہ بھی چل سکتی ہے

کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے

کربلا قلعہِ فولاد ہے جراروں کا

کربلا نام ہے چلتی ہوئے تلواروں کا

پچھلے دنوں کنور مہندر سنگھ بیدی کی کتاب 'یادوں کا جشن' پڑھ رہا تھا جس کا انتساب انہوں نے جوش صاحب کے نام کیا اور کتاب کا نام بھی جوش صاحب کی کتاب سے مستعار لیا۔ اس میں جوش صاحب کی قدر و منزلت جو اہلیانِ ہند کے ہاں رہی۔ وہاں کی اشرافیہ جس طرح تقسیم کے بعد بھی جوش صاحب کے آگے درخواست گزار رہی کہ واپس آجائیے آپ کا مقام آپکا منتظر ہے۔ پڑھی تو دلی دکھی ہوا کہ وہ شخص جس کو وزیرِ اعظم نہرو خود بھارت بلاتے رہے۔ جو وزیرِ اعظم کے گھر بلا دھڑک جانے کا استحقاق رکھتے تھے انہیں پاکستانی ریڈیو کے ایک ڈائرئکٹر کے آگے نوکری کی بھیک مانگنے جانا پڑا۔

زمانے زمانے کی بات ہے۔

ہندو مسلم، سکھ، عیسائی، ہندوستانی، پاکستانی کی تقسیم سے ماورا ہو کر جوش نے ایک انسان ہونے کی صدا بلند کی اور کہا

''اپنے ذہنوں میں یہ تصوراجاگر کر لو کہ میں ایک انسان پہلے ہوں اور اس کے بعد پھر کچھ اور۔''

جوش اپنے آپ کو شاعرِ آخر الزمان قرار دیتے تھے۔ آئیے انہی کا ایک شعر پڑھیے اور دیکھیے یہ بھرم جوش کو ہی سجتا تھا۔

ادب کر اس خراباتی کا، جس کو جوش کہتے ہیں

کہ یہ اپنی صدی کا حافظ و خیام ہے ساقی