1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. آزادکشمیر میں عقیدہ ختم نبوتؐ کا قانون

آزادکشمیر میں عقیدہ ختم نبوتؐ کا قانون

آزادجموں وکشمیر کونسل قانون ساز اسمبلی کے پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کے تناظر میں مشترکہ اجلاس میں عقیدہ ختم نبوتؐ کو آئین کا حصہ بنانے کیلئے قانونی مسودہ پیش کیا گیا اور 6 فروری کو ایوان کی متفقہ منظوری سے آئین کا حصہ بن گیا یہ حسن اتفاق ہے پانچ فروری کو ہر سال ملت پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ انکی حق خودارادیت کی تحریک کی حمایت میں، یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے اور مظفرآباد مشترکہ اجلاس سے پاکستان کے سربراہ حکومت کا خطاب ملت پاکستان کے کشمیری عوام کے ساتھ جذبات کا نکاسی ہوتا ہے تو آزادکشمیر کے عبوری آئین1974 کے تحت معرض وجود میں آنے والے قانون ساز اداروں کشمیرکونسل اسمبلی کے تانے بانے ذوالفقار علی بھٹو سے جاملتے ہیں اور یوم یکجہتی کی بنیاد بھی انہی کی طرف سے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے ملک گیر ہڑتال کی کال سے جاجڑ تی ہے اور سونے پر سہاگہ کے مصداق 22 ستمبر1974 کو پارلیمنٹ آف پاکستان سے منظور کردہ عقیدہ ختم نبوتؐ کو آئین کا حصہ بنانے کا سہرا بھی وزیر اعظم وقت ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے وہاں دو ماہ قبل مولانا شاہ احمد نررانی نے قرار دار پیش کی تھی یہاں میجر (ر) ایوب نے پیش کی تھی تاہم یہاں وہاں اور اب اس وقت کے حالات میں زمین آسمان کا فرق تھا 1974 سے نوے سال پہلے کا یہ فتنہ چلا آرہا تھا جو قادنیت سے مشہور ہوا سربراہ خود کو نفرت میں اور امام امیدی کے دوبارہ ظہور کے تصور کر بنیا د بنا کر خود کو نبی ہونے کا دعویٰ پیش کرتا تھا جسکا پردہ چاک کرتے ہوئے باب ختم کرنے کا ساری دنیا میں آئیڈیل نظام جمہوریت کے تحت انتظام کیا گیا جور یاست پاکستان اور ملت پاکستان کا ہی اعزاز ہے ناصرف امت مسلمہ بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مذہب کے نام پر فتنہ فساد جعلسازی سے نجات کا راستہ دکھا دیا جو پرامن جمہوری اور ہمیشہ کے لیے پائیدار ثابت ہوگیا ورنہ 1953 میں ریاستی طاقت طریقہ سے روکنے کا اقدام مستقل حل تو ثابت نہیں ہوا تاہم جاں ومال کے نقصان افراتفرں سے فسادیوں نے مزید فائدہ ہی اُٹھایا مگر حکمت تدبرتوفیق کے ثمرات سے سب کو ساتھ لیکر طویل مشاورتی غور فکر کے ساتھ اسکا ہمیشہ کے لیے حل کر دیا گیا اس عظیم شان کا میابی پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آدھے گھنٹے طویل خطاب میں پسے اورپیش منظر کا خلاصہ ثابت کرتا ہے۔ یہ واقعتا انسانی طاقت سے بالا معاملہ تھا وہ مسلسل تین ماہ شدید کرب ذہنی دباؤ اور نیند سے محرومی کا شکا ررہے کیونکہ ملک کا ہر گاؤں محلہ گھر فرد اسکے اثرات میں تھا جس سے راہ فرار اختیار نہیں کی جاسکتی تھی نوے دن اسمبلی وکمیٹی کے خفیہ راز درانہ اجلاسوں سب ممبران علماء جماعتوں ہر طبقہ خیال سے مشاورت واعتماد سے کامیابی ملی یہ مذہبی عقیدہ کا مسئلہ تھا اور ملک پاکستان کے قیام کی تحریک میں تعلیمات اسلام کا جذبہ روح کی طرح شامل تھا جسکے بنیادی شرط ایمان کی منافی فتنہ قادیانیت ملک ملت کی سلامتی کے لیے خطر ہ بن گیا تھا مگر اسکے حل سے نادف مسلمانان کو راحت سکون نصیب ہوا بلکہ قادیانیوں کو بھی بطور ملکی شہری یکساں حقوق کا تحفظ مل گیا بھٹو نے اس کامیابی کا سہرا پارلیمنٹ کے سب ارکان علماء جماعتوں ہر مکتب فکرکو دیتے ہوئے ساری ملت کی کامیابی قرار دیا۔ یقیناًان ممبران پارلیمنٹ میں عیسائی، سکھ، ہندو بھی شامل تھے جنکی حمایت سے متفقہ منظوری عمل میں آئی جسکا مطلب ہے یہ مذہب یا اقلیت کا معاملہ نہیں بلکہ مذہب عقیدے کے مغائر شرانگیزی تھی ہر ملک اور قوم کے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے اجتماعی امن مفادات کیلئے زہر قاتل ثابت ہورہی تھی لیکن یہاں 43 سال بعد آزادکشمیر میں اسکی ضرورت کیوں پیش آئی یہ اچھی بات ہے کہ یہاں امن عامہ فتنہ فساد کے مرتکب ہوسکنے والے عناصر کے منظم ہونے سے پہلے ہی ختم نبوت ؐ کے آئین پاکستان کے قانون کو یہاں کے آئین کا حصہ بنادیا گیا ہے جو یقیناًفاروق حیدر حکومت تمام ممبران پارلیمان اس سے جوڑے دوسرے شعبہ جات کے افراد سمیت ساری عوام کا اعزاز ہے جسکی سعادت کا سہرا سب کے لیے نسلوں تک قابل فخر رہے گا بمطابق عبدالرشید ترابی 1947 میں گرداس پور کو ریاست سے الگ کرکے ہندوستان کے قادیانی کمیونٹی سے منسوب علاقے سے جوڑنے میں ساز ش کا رفرماں تھی تو سب ہی پارلیمانی جماعتوں کے لیڈر ممبران نے اسکے تحریک کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں غیر مسلم آبادیوں کے پہلوں پر توجہ دلانے ہوئے فہم وفرصت اورفرض منصبی کا حق ادا کیا پاکستان سے لیکر کشمیر تک سارے پس منظر پیش منظرسے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان کی طرح تحریک کشمیر کی قوت کردار کامنبع جذبہ شہادت جدوجہد مسلم ایمانی بنیاد یں ہیں اگر چہ یہاں کے آئین کا اطلاق صرف آزادکشمیر کی حد ود پر ہی ہوتا ہے اس سے باہر اسکا کوئی اثر اور تعلق نہ ہے مگر اس پاس کردہ قانون کے اثرات کا وہاں تحریک سے جڑی قیادت عوام کو فائدہ ہی ہو گا نقصان کوئی نہیں ہے۔ اور ریاست کے عوام نے اپنے مستقبل کا فیصلہ اس جذبہ کی طاقت سے کرنا ہے جو آزادکشمیر کے آئین میں عقیدہ ختم نبوت ؐ کو شامل کرنے کی بنیاد ہے اور عظیم الشان سعادت ہے۔ جسکاتقاضہ ہے اللہ رب العالمین نبی رحمت العالمین کے معنوی پہلوؤں سے انکی تعلیمات کے مطابق عمل بھی ثابت کیا جائے نہ صرف آزادکشمیر میں جوجسکا حق ہے اسکو ہمیشہ کے لیے ملنے کا یقینی ماحول بنا یا جائے بلکہ اوقاف متروکہ املاک، آثارقدیمہ سیاحت جیسے محکموں کے اضافی ملازمین سے کام لیتے ہوئے مندر گردوارے بحال کرکے انکی حفاظت مقاصدکو یقینی بنایا جائے اور یہاں اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کی اقلیتوں کیلئے علامتی نشستوں کے پیغام کے علاوہ میرپور سے مظفرآباد تک صفائی کے فریضہ سے منسلک اقلیتی برادری عیسائی کو اعزازی اسمبلی نشت ہی دے دی جائے تو تعلیمات اسلامی عشق محبت آپ رحمت العالمین کا حق ادا ہو جائے اسکے ماننے والے ناصرف ساری انسانیت بلکہ ساری مخلوقات کیلئے مسیحا ئی کا کردار رکھتے ہیںیہی بات عقیدہ ختم نبوت ؐ کی آگاہی کے ساتھ تعلیمی درسگاہوں سے لیکر تمام شعبہ جات میں دنیاوی تعلیم جتنی اہمیت کی طرح ترویج دیے جانے کی بھی متقاضی ہے؟