1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. کرونا کا پیغام

کرونا کا پیغام

ایک نہ نظر آنے والے وائرس نے ساری دنیا کے انسانوں کی عقل اور طاقت کو بے بس کرکے رکھا ہوا ہے، اپنے پنے علوم کے عالم وفاضل تصور کیے جانے والے اسکا تاحال کوئی حل نکال سکے ہیں، نہ علاج میسر آسکا ہے، اسکے سامنے انسان کے ساری تخلیق کردہ جدید ٹیکنالوجی بھی چاروں شانے چت ہو چکی ہے، جسے یہ وائرس شکار بنا لے اسے قیدی بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے نہ اس سے ملنے والوں کو ملنا خطرے سے خالی سمجھا جاتا ہے، ایک خاندان یا ادارے کے ایک شخص کو یہ متاثر کردے تو سارا خاندان اور ادارے کے لوگ مشکوک جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں بلکہ دنیا کے سارے انسان بھی ایک دوسرے کیلئے اجنبی طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا تو دور کی بات ہاتھ ملانا بھی منع کردیا گیا ہے چہروں کو ڈھانپ کر بھی فاصلے لازمی ہیں، آدمی آدمی سے ڈرتا ہے کا عملی چہرہ ساری دنیا پیش کررہی ہے، مگر اس کے سبب بڑا مسئلہ انسانوں کو معیشت کا درپیش ہو گیا ہے، جسکے باعث بڑے سے بڑا و چھوٹے سے چھوٹا معاشی نوعیت کا حامل فرد متاثر ہو کر بے یقینی کی حالت میں ڈگمگا رہا ہے، سب سے بڑھ کر وہ جنکی ساری دنیا بھی پرندوں کی طرح اپنے اور اپنے خاندان کے پیٹ کے رزق کے حصول پر شروع اور ختم ہوئی ہے، وہ تکالیف کے دورانیے میں طوالت سے دو چار ہو چکے ہیں، اس حقیقت کے لئے حکومتیں ادارے، افراد، سب ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں کہ وائرس کو روکتے روکتے نئے امتحان سے دو چار نہ ہو جائیں، اس لیے انسان زندگی کیلئے ضروری معاش کو بحال کردیا ہے۔

دنیا کے انسان نہ چاہتے ہوئے کرونا کے ساتھ معمولات زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں، اس کرونا کی آمد کے بعد انسانوں کے سوا باقی تمام مخلوقات شاہد بہت خوش ہیں، جن میں پرندوں سے لیکر جانوروں تک ساری مخلوقات بلکہ ہوائیں، فضائیں بھی مسرت سے لبریز نظر آتیں ہیں، جیسے ان سب کو بہت بڑی بلاؤں سے نجات مل گئی ہے، یہ بلائیں فضاؤں میں اڑے طیاروں سے لیکر زمین پر چلتی پھرتی گاڑیوں سمیت ہر قسم کی مشینری ہے اور وہ سب گند بلائیں ہیں، جن سے آلودگی فضاؤں سے زمین تک انسانوں سمیت تمام مخلوقا ت کیلئے مسائل مشکلات، تکلیف کا انبار بنی ہو ئیں ہیں، بے شمار موزی بیماریاں انکے سبب ہیں، سانس آسانی سے لینے سمیت توانا زندگی کیلئے وبال جان بن کرچپکی ہوئی ہیں، جن کے اثرات میں لاک ڈاؤن کے باعث بہت بڑے پیمانے پر کمی آنے کے نتیجہ میں فضائیں ہوائیں شفاف ہو گئیں ہیں ایک انسانی آنکھوں احساسات سے دیکھی محسوس ہونے والی کیفیت کے قریب تر سیٹلائیٹ تصویر کے مطابق فضاؤں کی بلندیوں کا منظر بدل چکا ہے پہلے یہ اپنا اصل رنگ چہرہ کھو چکا تھا اس پر آلودگی کی کندگی کے گرد غبار سے تہہ در تہہ کیچڑ جیسی حالت ہو چکی تھی، مگر اس مختصر عرصے میں یہ صاف ستھرے چمکتے دلکش صورت میں واپس آچکا ہے، اس تصویر کے بارے میں تجزیاتی رپورٹ کانتیجہ اخذ کیا گیا ہے انسان اپنی من مانیوں سے باز نہیں آرہا تھا تونیچر نے ٹیک اوور کر لیا یعنی قدرت نے اپنا اختیار استعمال کرکے تمام انسانوں کو بند کیا اور نظام زندگی کو ٹھیک کردیا ہے اس رپورٹ کے اثرات ہر انسان خود ہی محسوس کر سکتا ہے، رات کے ختم ہونے اور صبح کے شروع ہونے کے ملاپ کے وقت کے بعد پرندوں کی آوازیں اور انکا چہکنا جوش خروش کا احساس دلاتا ہے، یہ بہت خوش ہیں اس حتی کہ جانوروں بلکہ درندوں کا بھی مسرت کے اظہار کرنے جیسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ دنیا کو قدرت کے سامنے لڑنے کے بجائے خود کو بدلنا ہوگا، فضاؤں، ہواؤں سمیت تمام دیگر مخلوقات کو جن عوامل نے خوش خرم کردیا ہے انکی طرف توجہ دیکر ان سب اسباب کا علاج دریافت کرنا ہوگا، جن کے باعث فضاؤں سے لیکر پانی تک آلودگی گندگی سے دو چار انسانوں سمیت سب کیلئے زہر بنتا جارہا ہے۔

ملکوں، سمیت سب کو ہر سطح پر ایک دوسرے کو فتح کرنے اور برتری حاصل کرنے کے زعم کو ختم کے اپنے اپنے لوگوں کو توانا زندگی فراہم کرنے کیلئے قدرت دوست اقدامات کرنے چاہیے ایٹم بم میزائل سمیت کیمیائی ہتھیاروں کو ختم کرکے انسانی زندگی کے۔ پر تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں ملکوں، اداروں اور افراد سے لیکر فرد تک معاشی طاقت بن کر دوسروں کو اپنے سے حقیر بنانے کے دھوکے سے باہر نکل کر ضرورتوں کے مطابق معاش اور معیشت کو سب کیلئے فلاح کا ضامن بنایا جائے یعنی انصاف ہر حوالے سے ہر سطح پر قائم کرکے جنگیں، سانحات کا خاتمہ کرتے ہوئے انسانوں بلکہ تمام مخلوقات سے دوستی کا حق ادا کیا جائے، فضائیں، ہوائیں پانی سمیت انسانی زندگی کے قدرتی اسباب ٹھیک ہوتے رہے تو انسان بھی توانا ہو کر قوت مدافعت کی اجتماعی تصویر بن جائے تو کرونا بھی کچھ نہیں کہے گا یہ تو صرف انصاف چاہتا ہے؟