1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. غیر ملازمین شوہروں کی وفا شعاری

غیر ملازمین شوہروں کی وفا شعاری

حکومت پاکستان کی طرف سے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کئے جانے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر کرونا ایشو کے مقابلے میں ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھنے کا ایشو نمودار ہو گیا ہے جسے بنیا د بنا کر احتجاجی کتبے یعنی ٹیوٹر، واٹس ایپ، فیس بک سمیت تمام سائیڈز پوسٹیں ایک دوسرے سے بڑھ کر غم و دکھ کے مختلف انداز میں چل رہی ہیں جن کی مخالفت میں بھی اظہار خیال میں کمی نہیں ہے جس طرح کرونا ایشوکے شور میں تنخواہیں نہ بڑھنے کا ایشو متبادل موضوع بنا ہے اس طرح تنخوائیں نہ بڑھنے کے احتجاج کے کاؤنٹر میں مومنٹ موجود ہے اگر چہ نیا بجٹ مجموعی طور پر ایسا ہے حکومت کے مخالفین سمیت مزاج تنقید کے حامل عناصر کو اس میں کوئی ایسی ٹھوس چیز نہیں ملی ہے جسے بنیاد بنا کر بجٹ کا آپریشن کیا جا سکے اور اسے اچھا نہ کہنے کی مجبوری کے باوجود برا کہنے کیلئے بنیادیں ڈھونڈنے میں پریشانی سے دوچار ہیں تاہم تنخواہیں نہ بڑھنے کے عوامل نے ان کو سکرینوں صفحات پر حاضر رہنے کا برہم فراہم کیا ہوا ہے کیونکہ سب جانتے ہیں گزشتہ سالوں سے ملک کو قرض فراہم کرنے والے اداروں خصوصاََ آئی ایم ایف کی طرف سے سرکاری اسٹرکچر کو محدود غیر ضروری پھیلاؤ کے خاتمے اکثریتی دنیا کی طرح مستقل سرکاری ملازمت اور پنشن ختم کرنے کا شدید دباؤ چلا آرہا ہے۔

گزشتہ حکومت انتخابی ماحول کے غلبے میں اس معاملے سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بچ گئی تاہم حکومت کسی بھی جماعت کی ہوتی اس نے بالآخران شرائط پر عمل کرنا تھا اور معاشی اصلاحات کی پابندیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا تھا جس میں کرپشن اور سرکاری، غیر ضروری انتظامی بجٹ ختم کر کے باقی دنیا کی طرح نظام چلانے کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے جیسا کہ ایک عام پاکستانی سری لنکا میں 20 بحری جہازوں کی کمپنی صرف5 سو ملازمین سے چلا کر آخری نچلے درجہ کے ملازم کو1لاکھ اس سے اوپر والوں کو بدرجہ آخری سب سے بڑی تنخواہ9لاکھ دے رہا ہے جبکہ ملک پاکستان کی سرکاری سطح پر 10بحری جہاز اور10ہزار ملازمین والی کمپنی اس کے مقابلے میں زیرو ہے اور ناکامیوں کا بوجھ بنی ہے۔ یہی حال تمام اداروں کا ہے یعنی محنت، دیانت سے کام کرنے والوں کو ان کی کارکردگی کے بدلے وہی معاوضہ ملتا ہے جو کام نہ کرکے اداروں کو ناکام بنانے والوں کو مل رہا ہے نتیجہ ساری معیشت اور نظام کا برا حال ہے اس لئے ضروری ہے کہ باقی دنیا کی طرح معاہدے کے تحت صلاحیت اور کارکردگی کے حامل ملازمین کو لاکھ کے بجائے 5لاکھ دیئے جائیں تا کہ یہ اپنی ملازمت کے دوران بعد کی زندگی کا جائز باوقار اہتمام انتظام کرتے ہوئے پنشن کی زلالت سے محفوظ رہ سکیں اور سرکاری، غیر سرکاری سیکٹر کے صحت مند مقابلے سے ملازمین سمیت تمام قوم سر اٹھا کر آئندہ نسلوں کو محفوظ مستقبل منتقل کر سکیں۔ کیونکہ صلاحیت، کام، کارکردگی اور نا اہلی، کام نہ کرنے والوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک اور معاوضہ اصل حق دار، پریشان حال ملازمین کی حق تلفی کا باعث بنتا آ رہا ہے۔

تاہم ساری نئی صورت حال کا بہت دلچسپ پہلو کرونا سے زیادہ ایسے غیرملازم شوہروں کی نئی پریشانی ہے جن کی بیویاں سرکاری ملازم ہیں خصوصاََوہ جو سیاسی کارکن ہیں یا پھر ایسے شعبہ جات سے تعلق رکھتے ہیں جو رائے عامہ میں کسی نہ کسی طرح شامل رہتے ہیں جوایسے شعبہ جات سے تعلق نہ رکھتے ہوں مگر سوشل میڈیا اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں، ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھنے پر پوسٹیں بنا کر اپنی احتجاجی کاکردگی کا ایک دوسرے سے بڑھ کر مظاہرہ کررہے ہیں، بار بار نئی نئی سوشل میڈیا پر پوسٹیں پھر ان پر کمنٹس اور لائک بتا کر ان کی خوشنودی کے حصول و غصہ کم کرنے کیلئے وفا شعاری کی تاریخ رقم کر رہے ہیں اور کم ازم کم کچھ وقت کیلئے کرونا کی سر دردی کا خوف بھول چکے ہیں ایسی ہی وفا شعاری سب ملک ملت سے اپنے شعبہ جات میں اپنے اپنے فرائض کے ساتھ نبھانا شروع کر دیں تو ایک دن ضرور آئے گا لوگوں کی آمدن یکدم نہ سہی آہستہ آہستہ مگر بہت جلدی 100سے ہزار ہوجائے گی اور سارا ملک خوشحال، باوقار ہوجائے گا۔