1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. طاہر احمد فاروقی/
  4. سپریم کورٹ آزادکشمیر ان ایکشن

سپریم کورٹ آزادکشمیر ان ایکشن

ملک و ملت معاشرے، ادارے، افراد، فرد کے اعلیٰ معیار کا تعلق سدھارسے ہے، اچھے کاموں، بھلائی کے عمل کو تقویت پہنچانے کیلئے مثبت سوچ فکر کا کردار ادا کیا جائے، غلط کام کو ٹھیک کرنے کیلئے کوئی حیل، صحبت، رکاوٹ حائل نہ رہنے دی جائے، نظام سب ہی ٹھیک ہوتے ہیں مگر ہمارے معاشرتی، انفرادی، اجتماعی رحجانات درست کے بجائے غلط انداز کو خود پر غالب کرنے کے اسباب بن کر خطرناک وائرس کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں جس کے باعث حکومتوں، اداروں میں انصاف، بھلائی کیلئے کام کرنے والے کٹھن اعصابی و عملی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسے میں اعلیٰ عدلیہ کا جرات مندانہ کردار وجود میں رہے تو بڑی حد تک خرابیوں کے راستے میں بندھ باندھنے کے جیسا ثابت ہوتا ہے۔ آزادکشمیر کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے حالیہ عرصے میں فیصلوں کی مثالیں خوش آئند اُمیدیں بنی ہیں، سپریم کورٹ کی طرف سے دارالحکومت مظفر آباد کے ایشوز خصوصاً ماحولیاتی سنگین مسائل اور سیوریج، واٹر سپلائی سمیت دیگر اہم نوعیت کے منصوبہ جات کے متعلق سول سوسائٹی کی طرف سے دائر کردہ اپیل پر نوٹس لیا گیا ہے۔

دارالحکومت مظفر آباد پاکستان بھر کے پاکستانی مگر مقبوضہ کشمیر سے تعلق کی بنیاد پر کشمیری مہاجرین کہلانے والوں سمیت آزادکشمیر کے تمام اضلاع، تحصیلوں، مقبوضہ کشمیر کے نگر نگر کے 1947 سے 1990 تک آنے والے خاندانوں کا گلدستہ ہے، تمام تہذیبوں، زبانوں، اقدار، خیالات کا آئینہ دار ہے۔ جس کا 2005 کے زلزلے کے بعد منظر کھنڈر تھا تاہم ملک ملت پاکستان کے کردار سے مظفر آباد شہر سمیت زلزلہ متاثرہ تمام اضلاع میں تعمیر نو کے شاہکار منصوبہ جات کا وجود عمل میں آیا، لیکن منصوبہ بندی کے حوالہ سے زلزلہ کے تاحال خطرات سے محفوظ رہنے کے جائیکا پلان کے ساتھ ماحولیاتی ایشوز کے پیشگی اقدامات میں شدید غفلت، درد ناک حقیقتوں کا سبب بنی ہے اُمید ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ابراہیم ضیاء اس حوالے سے اپنے دلیرانہ فیصلوں کی فہرست میں نیا باب رقم کریں گے جو شہریوں کیلئے اطمینان اعتماد کا سنگ میل ثابت ہو جسٹس سپریم کورٹ غلام مصطفی مغل کی جانب سے سب سے اعلیٰ تعلیمی اداروں، جامعات میں گزشتہ ایک سال سے وائس چانسلرز کی تقرری کا گورکھ دھندہ حل کیا گیا ہے جس کے باعث یونیورسٹیوں کے اندر انتظامی مسائل جنم لے چکے تھے اپنے فیصلے میں آئینی رو کے مطابق حکم سنایا کہ وائس چانسلر کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کو حاصل ہے اور صدر ان کی ایڈوائس کے پابند ہیں۔

یہ انکشاف بھی سامنے آیا مسٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایک فارن فنڈنگ پروگرام میں تعینات ہیں جو یونیورسٹی میں وقت دینے کے بجائے اپنی پہلی نوکری کو زیادہ اہم تصور کرتے تھے اس طرح کی تعیناتیاں کرنے والوں کی گرفت ضروری ہے، حالیہ ایام میں ہائیکورٹ کی طرف سے ہسپتالوں کی حالت زار پر بہترین فیصلہ سنایا گیا تو اب تعلیمی نظام سے متعلق تمام سرکاری آفیسران کے بچوں کا تعلیم کا سلسلہ کن کن تعلیمی اداروں میں ہے تفصیلات مہیا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، محکمہ تعلیم کے اپنے آفیسران ملازمین کے بچے بھی سرکاری اداروں میں کتنے ہیں کتنے نہیں ہیں۔ قائم مقام چیف جسٹس اظہر سلیم بابر کی سربراہی میں جسٹس صداقت حسین کی طرف سے یہ احکامات براہ راست سرکار ی خزانے کو مال غنیمت سمجھ لینے کے تصور و عمل کیخلاف امانت کا درجہ باور کرانے کی جرات مندانہ کاوش ہے۔ جسٹس راجہ سجاد نے محکمہ تعلیم کی طرح محکمہ مال میں تقرری کیلئے این ٹی ایس کو نافذ کرنے کا فیصلہ سنایا۔ جسٹس رضاعلی خان نے جائیدا میں بہن، بیٹی کے حصے کے تحفظ کا فیصلہ دیکر ان کا حق نہ دینے کے باطل جواز بہانوں کو قابل سزاقرار دیا ہے۔ جسٹس شیراز کیانی، جسٹس سردار اعجاز احمد سمیت قتل کے مقدمات سمیت اجتماعی افرادی نوعیت کے ڈھیر کیسز کو یکسو کر کے عدلیہ کے بارے میں منفی تاثرات کو زائل کرنے کی قابل قدر مثالیں قائم کی ہیں جس کا کریڈٹ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم ضیاء، سینئر جسٹس راجہ سعید خان، جسٹس غلام مصطفی مغل کو بھی جاتا ہے جن کی طرف سے عدالتی اصلاحات کو طویل مشق کرتے ہوئے قابل عمل بنایا گیا۔

فیصلہ سازی میں بہتری لائی تو عدالتی نظم و نسق اس کی مکانیت، سہولیات کیلئے خاص محنت کی گئی تاہم ان تمام کاوشوں اور حالیہ جرات مندانہ فیصلوں، احکامات کا خوشگوار تسلسل سدا رہنا چاہیے، یہ موسم بہار ہی نہ رہے بلکہ سردی گرمی میں بھی رواں دواں رکھا جائے، خاص کر ماتحت ذیلی عدلیہ میں اوپر سے نیچے اس کے اثرات بھی یقینی بنانے کیلئے ایک ماہ ایک دِن ضرور وقف ہونا چاہیے یہ حکومت کا بھی خاص کریڈٹ ہے، اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی کمی کی ضرورت کو پورا کیا، فیملی کورٹس قائم کیں، مکانیت، سہولیات کے تناظر میں کمی کو تیزی سے پورا کیا جس کے سربراہ وزیراعظم فاروق حیدر کے متعلق توہین عدالت کی درخواست خارج کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ابراہیم ضیاء نے اس غلط فہمی اور منفی تاثر کو ختم کر دیا ہے کہ ہر معاملہ توہین عدالت نہیں ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کے بعد مثبت انداز میں اس کے اثرات قوانین کے پہلوؤں پر ذمہ دار منصب اُمور والے ذمہ دار فورم پر رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے عدلیہ کے حوالے سے ہمیشہ فراخ دِلی کا مظاہرہ کیا ہے جو یقینا ان کی طرف سے عدلیہ میں ججز سٹاف سے لیکر مکانیت، سہولیات کو بڑی حد تک ممکن بنانے کا شکریہ ہے لیکن یہ سوال اور تاثر بھی توجہ چاہتا ہے عدلیہ کے وہ فیصلے، احکامات جو حکومتوں، اداروں کیلئے انصاف فلاح کے عمل میں معاون و مددگار کردار کا حامل ہیں ان پر سو فیصد عملدرآمد نہ کرنے پر بھی ٹھوس نظریں ملنی چاہیے ہیں خاص کروہ جو عدالتی نزاکتوں سے واقف ہیں نہ زرہ بھر مالیتی استطاعت رکھتے ہیں ان کے لیے عدالت میں رجوع کرنے پر دادرسی درکار ہے؟ نیز خود عدالتوں کے اندر مقدمات میں فریقین سے حلف لینے کہ میں جو کچھ کہوں گا اللہ کو حاضر ناظرجان کر کہوں گا اس کے بعد جرح بھی کی جاتی ہے ان دونوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اور جھوٹی گواہیاں انصاف کو داغ دار کرتی ہیں اس کا حل نکالنے کی بھی ضرورت ہے۔