1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. حلالہ جمہوریت، سازشی بیانیہ اور’ نیا پاکستان‘

حلالہ جمہوریت، سازشی بیانیہ اور’ نیا پاکستان‘

واشنگ مشین والے سرف، کاسٹک سوڈے، غیرمعیاری ڈالڈا گھی، زیرِناف صفائی والے غلیظ پاؤڈر اور زہریلے کیمیلز سے بنا غلیظ، گھناؤنا، ناپاک ونام نہاد د ودھ۔ دو چار نہیں، دس بیس نمبری ادویات۔ جعلی لیبارٹریاں، بیماریوں کی پوٹ اور صحت کے لیے جھوٹ ہوچکے فوٹو کاپی انسانوں سے بھرے ہسپتال۔ جان بچانے والے مہنگے انجکشنوں میں بھرا سادہ پانی۔ رہنے کو مرغیوں کے ڈربوں سے بدتر اور کمتر قبر نما گھر، پینے کو انسانی فضلہ ملاناپاک و ناصاف گھن آور پانی۔ ہوٹلوں، ورکشاپوں، کھیتوں، کھلیانوں، ٹھیلوں، بس سٹاپوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر کاربن پھانکتے، کالک کماتے غریبی کے کولہو میں پسے بچے۔ سکولوں میں بندھے وڈیروں کے سیب کے مربے کھاتے گھوڑے، کتے اور دوسرے اصلی نسلی جانور۔ مری، اسلام آباد اور ہر بڑے شہر، ہر مہنگے ٹاؤن میں ایکڑوں پر پھیلے اہلِ اقتدار کے فرعونوں اور قیصروں کو شرما دیتے محلات۔ قومی املاک اور عوامی وسائل پر حکمران نامی مخلوق کے غاصبانہ قبضے جبکہ برستی بارشوں، ٹھٹھرتی راتوں اور جھلستی دوزخ دوپہروں میں دھواں و دھول اڑاتی گاڑیوں کے نیچے بچھی سڑکوں کے کنارے حکمرانوں کی نسلوں کو روتے، اپنی زندگی کا لاشہ گھسیٹتے اچھوت، شودر اور بےقیمت ذلیل عوام۔ شرفا کی مائیں بہنیں اٹھالے جاتے اور غلیظ ترین گالیاں بکتے تھانے، مجرم اور جرائم کی حفاظت پر مامور پولیس۔ رشوت، سفارش، طاقت اور بدمعاشی کے بغیرسانس تک لینے نہ دیتی ریاست۔ غربت و لاچاری سب سے بڑا جرم جبکہ دولت وطاقت ولایت کا سب سے بڑا ثبوت۔ ان پڑھ اور ان گھڑ سیاستدان اور جھرلو الیکشن۔ دھونس دھاندلی، رشوت اور عوامی مال سے پلی جمہوریت کی نمائندہ توندیں۔ لولے لنگڑے لاچارو بیمار، کینسرزدہ، فاقہ زدہ، ہیپاٹائٹس، شوگر، بلڈ پریشر کے چلتے پھرتے نمونے عوام۔ نفسیاتی بیماریوں کے ہو بہو نقشے بنا دیے گئے انسان نما عوام۔ عوام کہ جن کی ہڈیاں بغیر ایکسرے کے گن لو اور حکمرانوں کے دوسو سالہ بڈھے کھوسٹ چہروں پربھی ریشمی ملائمت اور تمتماتی سرخی۔ یہ ہے جمہوریت کا پھل، نتیجہ اور ثمر۔ شہ رگیں کٹواؤ، آگے آؤ کہ یہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ آؤ بچاؤ کہ عفونت زدہ عفیفہ، سفاک قاتلہ، انسانی لہو کی رسیا ڈائن و ڈریکولا اور روحِ انسانی کا جوس نکالنے والی سفاک مشین خطرے میں ہے۔ جمہوریت خطرے میں ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پانامہ سازش، اقامہ سازش، عدل سازش، عدلیہ سازش، جج سازش، وکیل سازش، نیب سازش، سپریم کورٹ سازش، جے آئی ٹی سازش، ایم آئی سازش، آئی ایس آئی سازش، فوج سازش، آزاد صحافت سازش، باضمیر صحافی سازش، لندن کے فلیٹس سازش، گلف سٹیل مل اور ہل میٹل سازش، حدیبیہ پیپر مل سازش، کاغذات کا نہ ہونا سازش، ثبوتوں کا پیش نہ کرنا سازش، خاندان کے آپس میں بیانات کا نہ ملنا سازش، لندن کے فلیٹس کس پیسے سے خریدے؟ یہ پوچھنا سازش، روپیہ ملک سے دبئی، سعودیہ لندن کیسے گیا، کوئی ثبوت؟ کوئی گواہ؟ کوئی کاغذاور دستاویز؟ یہ پوچھنا اور اس کا ذکر اور تذکرہ سازش۔ ججوں کا سال سال بھر شریفوں سے ثبوتوں کی منتیں کرنا سازش۔ چودھری نثار سازش، نعیم بخاری سازش، عمران خان سازش، امریکہ سازش، انڈیا سازش، اسرائیل سازش۔

حق کیا ہے؟ میاں حق، میاں کی فیملی حق، اربوں کی جائیداد حق، بدلتے بیانات حق، عدالت کے سامنے آئے تضادات حق، مودی کا بغیر ویزے جاتی عمرہ آنا حق، بھارتی بزنس مین سجن جندال کا بھوربن آنا، میاں سے ملنا حق۔ بیرون ملک واقع میاں کی ملوں میں پاکستانیوں کے بجائے بھارتیوں کو کام دینا حق۔ بھارتی لابی کا عالمی اخبارات میں میاں کی حمایت میں لکھنا حق۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی ججوں کے مقابلے میں ڈان کا اداریہ حق، وزیراعظم ہاؤس سے اپنی ہی فوج کے خلاف کی گئی نیو زلیکس حق۔ ایفی ڈرین کیس حق، ایل پی جی گیس سیکنڈل حق، بیٹی کی نگرانی میں محاذ پر کھڑی فوج کے خلاف میڈیا سیل بنانا حق۔ ظفر حجازی کی ریکارڈ ٹیمپرنگ حق۔ 62 اور 63 کی شق سازش، جھوٹ اور فراڈ کا معمول حق۔ المختصر، سارا قانون سارا دستور سازش، صرف میرا منشور حق، میرامفاد حق۔ ساری کائنات سازش، میں اکیلا حق۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تم بکے ہوئے ہو، اخبار ی پالیسی کے سامنے جھکے ہوئے ہو۔ تم بےتوقیر اور تم بےضمیر ہو، تمھارا اسلام مشکوک، تمھاری حمیت مردود۔ تم بدل گئے، تم بک گئے۔ سچ سے تم پھسل گئے، حق سے تم ہٹ گئے۔ جی بہتر!

اچھا تو سچا کون؟ محب وطن کون؟ جو زندگی کی ہر سانس اور قلم کی جوہر تحریر کا مقصد حکمرانِ وقت کی مدح کرلے؟ حکمرانوں کو جو تکبر بھری تقریریں لکھ کے دے ؟ جو دو دو سو گز سرکاری محلات میں رہے، سرکاری دوروں میں حکومتی طیاروں میں جو یہاں وہاں گھومتا پھرے؟ دماغ کی گٹھڑی اور قلم کی سیاہی نچوڑ کے جو سرکاری ٹی وی کی چاکری کرے؟ حکومتی گود میں بیٹھ کے جو حکمرانوں کو ظلِ الہی لکھے؟ جو اپوزیشن کو غدار، منافق اور سازشی لکھے؟ جو صحافت سے پلازے کھڑے کر لے؟ جو بجائے حکمرانوں کو سچ اور حقائق بتانے کے ’مستند ہے تیرا فرمایا ہوا‘ کا پٹا گلے میں ڈال کے شرفِ انسانی کی توہین کرے؟ جو ریاستی اداروں کے خلاف بھارتی اور امریکی زبان بولے، جو اپنی فوج اور عدالت کے خلاف امریکی و بھارتی اخبارات کو دلائل مہیا کرے اور پھر انھی دلائل کو اپنے میڈیا میں دہرائے، جو سائیکل سے اٹھے اور آدھے لاہور کا مالک بن جائے؟ جو اپنی سوچ گروی رکھ دے اور کسی بڑے کی طے کردہ پامال لائن پر اوندھے منہ یوں گرے کہ اسے اس لائن کے سوا کبھی کہیں حق دکھائی ہی نہ دے؟ جس کی صحافت کا اوج اور جس کی ذہانت کا عروج حکمرانوں کے نت نئے مظالم و مفاد، چالاکیوں و چالبازیوں کا دفاع کرنا اور انھیں نت نئے دلائل مہیا کرنا ٹھہرے؟ جو حکمرانوں کے ذاتی مفاد کو جمہوریت کو خطرہ بتائے؟ جو حمقائے اعظم کی حماقتوں کو ارسطو کی ذہانت بتائے ؟ قلم توڑ سکتا ہوں، یہ میں نہیں کر سکتا۔ سو مجھے تمھارے الزام قبول، میں بک گیا اور میں جھک گیا، میں حکمران کے اشارۂ ابرو کو حق و صداقت کہنے کی جسارت نہ کر سکا۔ میں مان گیا، کچھ لیکن اب تم بھی مان جاؤ۔ اپنی تاریخ بدلو۔ میں ان کے قدم ہائے پاک کی خاک بھی نہیں، استدلالاً لیکن کہتا ہوں۔ ابن الوقت علماء اور حاصل و وصول کے گرداب میں پھنسے دانشوروں کے مقابل کھڑے اکیلے ابن حنبل کو لیکن تم ہیرو کہنا ترک کرو، انھیں صداقت کا مجسمہ کہنا بند کرو۔ تم بھی ابنِ حنبل کے ہم عصر سرکاری درباری لوگوں کو اپنے ہیرو اور حق و صداقت کا پیکر مان لو۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گالیاں اور ناچ گانے۔ چپڑاسی نہیں رکھ سکتا، وزیراعظم نامزد کر سکتا ہوں۔ ہر بڑے کے لیے اوئے توئے اور ابے تبے، لاف زنی اور بےلگامی۔ اپنی ہی پارٹی لیڈر کی بیٹی کے خلاف غلیظ پروپیگنڈا مہم۔ چور، لٹیرے ڈاکو، بے شرم، بےحیا اور ذلیل آدمی طرہ ٔ امتیاز اور تکیہ کلام۔ کبھی ایمپائر کی انگلی نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جانا اور کبھی عدالتوں نے یہ کہا اور وہ کہا کی سناؤنیاں دیتے پھرنا اور پھر وضاحتیں کرنا۔ جنون کا لفظ بول کے قوم کو پاگل اور مجنون سمجھ لینا؟

ہاں! میرٹ کو محبوب اور تعلیم کو ترجیح بنانا، قانون کے دائرے کو ہر دیوار اور ہر ڈائنوسار تک پھیلانا، کرپشن کی بےلگام گھوڑی کو کھونٹے سے باندھنے کو منشور بنانا حسین خواب۔ نیت نیک ہوئی تو شاید قدرت موقع بھی دے دے، عمل کی اگرچہ قوم نگرانی کرے گی۔ ستر سال سے لٹی پٹی خواب نگری کے گھپ اندھیرے میں ایسے روشن جذبے کو سلام! کرپشن کے دیوسائی کو بحیرہ ٔعرب میں ڈبونا، بدعنوانی کے گلیشئر کودیانت کے سورج سے پگھلانا اوراجنتا کی غاروں جتنے پیٹوں والے مگرمچھوں کو تاریخی شکست دینا بھی تمھارا کارنامہ، یہ زبان اور یہ کلچر مگر تنفر آمیز اور نرا مردود، یہ قوم کو دور بھگا کے تمھیں کھا جائے گا۔ یہ اتنی پڑھی لکھی قوم نہیں کہ ایسے نئے پاکستان کے لیے زیادہ دیر تمھارے پیچھے چل سکے۔ دیانت بھی ہوگی مگر زبان قابو کیجیے۔ تول کر بولیے، ورنہ ہمالیہ سے گرا بچ جاتا ہے، دلوں اور نظروں سے گرا کبھی نہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بڑے میاں گئے، درمیانی حلالے کے وقفے کے بعد چھوٹے میاں آجائیں گے، شکر ہے جمہوریت بچ گئی۔ چودھری نثار کے سوا دو سو سے زائد سینئر لیگی پارلیمنڑینز کی جمہوریت کے لیے اس ’قربانی‘ کو سات سلام