1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. یوسف سراج/
  4. ہجرت کے پندرہ ہزار سال بعد

ہجرت کے پندرہ ہزار سال بعد

کون مانے؟ کسے یقیں آئے؟ وہ چار قدم تاریخِ انسانی کو بدلنے کے لیے خدا کی سنگلاخ دھرتی پر اٹھے وہ چار قدم جبر کو توڑتے، گرد ِ راہ کو کاٹتے، عزم سے اٹھتے اور یقین سے زمیں پر آ پڑتے سوئے منزل رواں وہ چار قدم ان چار قدموں پر جو مبارک دھڑ اور مقدس سر تھے۔ بشریت کا وہ اعجاز دو بشر تھے۔ بے دری کی حالت، بے سروسامانی کا عالم، مال نہ متاع، کہیں بسیرا نہ کوئی پناہ، وسائل کافور، مسافر مجبور و مقہور۔ خیر جو بھی تھا، ستم کا سماج اور جبر کا راج بدلنے کو یہ قدم اب بہرحال اٹھ چکے تھے۔ یاحیرت! دنیا بدل دینے کا قصد اور یہ دو جسد تنِ تنہادو نفوس مگر پر عزم اور پرخلوص لیکن آخرش تو دو ہی تھے! پورے نظام اور سماج کے مقابل محض دو لوگ کرتے بھی تو کیا؟ کس کس کا مقابلہ کرتے؟ کیونکر ہدف سے جا ملتے؟کیاایسا ممکن بھی تھا؟ آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے! لیکن ذرا سا تھم جائیے، کم از کم اتنا جان لیجئے کہ تعداد میں اگرچہ وہ دو ہی تھے، پر ہرگز معمولی وہ نہ تھے۔ ان کے مباک سینوں میں، نورِ ایماں کے خزینوں میں، بڑے اجلے دل دھڑکتے تھے، کیا نور کے جگنو چمکتے تھے۔ پھر دل کی اک اک دھڑکن سے، صبر و ثبات اور ایمان و استقامت کے مصفا چشمے ابلتے تھے۔ وہ کہ آسمان جن کے بارے کہہ چکا: خدا یہ لکھ چکا کہ بالضرور میں اور میرے رسول ہی غالب ہو کر رہیں گے۔ لاریب اللہ ہی قوی اور زبردست ہے۔ '' اور فرمایا: ''جس نے اللہ پر توکل کیا، اس کے لیے تو بس خدا کی نصرت ہی کافی ہے۔ بے شک خدا کو اپنا کام کرنا آتا ہے۔ '' اچھا تب آپ کیا کہیں گے، جب تاریخِ انسانی کی اس عظیم ترین شاہراہ پر اٹھنے والے ان چار قدموں میں سے، دو قدم، جمیع مخلوق سے بہتر و برتر اور اعلیٰ و افضل شخصیت کے قدم ہوں۔ وہ کہ احمد و محمد جن کا نام، مجتبیٰ و مصطفیٰ جن کا مقام اور کوثر جن کا جام۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر جن کی شان اور ان شانئک ہو الابتر جن کی آن۔ ہر پل ذکرِ خدا جن کا معمول اور و رفعنالک ذکرک جن کی رفعت کا زریں اصول۔ وحی جن کا مکتب اور ابلاغِ دین جن کا منصب۔ معراج جن کی سیر اور براق جن کی سواری۔ خدا جن کا خلیل اور مرسلین جن کے مقتدی۔ اقصیٰ جن کا مصلی اور مقامِ محمود جن کا مکان۔ میری کل محبتیں، کل کائناتیں ان کی گردِ راہ کے کسی نامعلوم ذرے پر قربان، صد جان سے قربان۔ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ تھے دو قدم! خیال آیا، انھی دو قدموں تک آنا ہی تو انسانوں کا مقصدِ حیات ہے، اسی فاصلے میں تو سارا فیصلہ ہے۔ اپنی کامیابی کے لیے انسانیت نے ان دو قدموں کی طرف دو قدم ہی تو اٹھانے ہیں، بچپن سے بڑھاپے تک یہی دو نقشِ قدم ہی تو پانے ہیں۔ آدمی کی اپنی حیات اور اسکے گرد بکھری اس کائنات کی اس کے سوا کوئی اور قیمت اور قسمت ہی کیا ہے؟ ہر دور کے ہر درد کی ان دو قدموں کے سوا اور دوا ہی کیا ہے؟ یہی دو قدم، ان قدموں کے نقشِ قدم! اور ان کے رفیقِ سفر! وہ صدیقِ اکبر، اللہ اکبر بقولِ اقبال جن کے لیے تو کافی ہے خدا کا رسول بس۔ محبوب کی خوشی، جن کے لیے حاصل ِ زندگی۔ جن کی صداقت قرآن کی عبارت، جن کا تذکرہ اہلِ ایمان کی تلاوت، مومنوں کی عبادت: ''وہ جو سچائی لایا اور وہ جس نے سچائی کی تصدیق کی۔ '' سبحان اللہ کیا راہ تھی اور کیا راہی۔ کیا صاحب تھے اور کیا مصاحب۔ ایک سید الانبیا تو دوسرے بعد از انبیا سیدالبشر۔ یہ فخرِ رسولاں، وہ فخر ِ امتاں ! ہجرت کی راہ تھی اور یہ چار قدم تھے۔ منزل دور، سفر دشوار۔ کعبہ پیچھے اور مدینہ آگے، دل یہاں تو قدم وہاں۔ یہاں کچھ بھی آسان نہ تھا، آگے بڑھانے والا تو بس ایمان تھا۔ ہجرت آسان ہوتی ہے اور نہ اس کا صلہ کمتر۔ ہزاروں میل پیدل چل دیئے۔ تاکہ نتیجتاً مدینہ سے پھوٹتی انوار کی کرنیں کل عالم کو جگمگا دیں۔ سفر کہاں تھا ابو بکر کے لیے تو یہ البیلی معراج تھی۔ سو پل پل بوڑھے قحافہ کے رقیق بیٹے کی آنکھیں بھیگتی جاتی تھیں۔ یہ ایسی مسرت کے آنسو تھے، کائنات میں جو کبھی کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوسکی۔ صحابہ بہت تھے اور اہلِ ایمان بھی رہتی دنیا تک رہیں گے، سفرِ ہجرت کی رفاقت مگر صرف صدیق کے لیے اتری تھی۔ چنانچہ خیرالخلق کلہم کی رفاقت پر صدیق کی آنکھیں ہجرت کے ہر قدم پر اپنے ہونے کا پتہ دیتی جاتی تھیں۔ سفر آسان نہ تھا، دشمن پیچھے تھا تو خطرہ آگے، دلوں میں مگر ایمان کے چراغ فروزاں تھے۔ عالم جب یہ ہو تو کاہے کاخطرہ اور کاہے کا ڈر۔ قرآنی الفاط میں کہیں تو لاضیر۔ کچھ مضائقہ نہیں، چنداں حرج نہیں۔ ہجرت ایک فرد کی کب ہوتی ہے۔ یہ تو ایک امت کی ہجرت تھی۔ ہر ایک کا جس میں ایک کردار تھا۔ ہجرت کے کینوس پر کیا سنہرا یہ بھی کردار رقم ہوا۔ ہجرت کے اس ہنگام عجب بپتا پڑی تھی۔ وقت کم تھا اور معاملہ سنجیدہ و سنگیں۔ بر وقت سوچنا ہی نہ تھا، کچھ کر دکھانا بھی تھا۔ (جاری ہے)