1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. الف شفق اور وقار کنول

الف شفق اور وقار کنول

کافی عرصے سے اسی سوچ و بچار میں گم تھا کہ محبت، روحانیت اور انسانیت کو ضَم کرکے ایک ناول کی شکل دینے والی خوبرو مصنفہ کو خراجِ تحسین ضرور پیش کروں۔ جس طرح وہ ظاہری طور پر ترک النسل ہونے کی وجہ سے خوبصورتی اور نفاست کا حسین امتزاج ہے اسی طرح اس کی تصنیف بھی محبت اور روحانیت پر یقین رکھنے والوں کی نظر میں اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ ان کی اس تصنیف سے پہلے کی تحقیق و تدوین اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اہلِ قلم آج بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ اس کی وجہ قونیا ہو، مولانا رومؒ ہو یا پھر شمس تبریزؒ وہ سب ایک طرف ہے۔ محض ایسا نہیں ہے کہ پروین شاکر کی طرح ایلف کو بھی خوبصورتی یا رکھ رکھاؤ کے سبب اتنی شہرت میسر آئی ہے۔ یہ اس کے اندر علم و ادب کے پھوٹتے چشمے کے شیریں ذائقے کا اثر ہے جو دونوں مذکورہ شخصیات میں موجود ہے۔
یوں تو انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز بہت پہلے کیا تھا لیکن ان کا دائرہ کار صرف ترکش لٹریچر تک محدود تھا۔ ان کا ادبی سفر پروین کی طرح نہایت کٹھن اور مشقت طلب تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے قلم میں آنے والے نکھار نے ادبی دنیا میں ان کے مقام کو مزید جلا بخشی۔ 2004 میں انہوں نے اپنا انگریزی ناول " دی سینٹ آف انسپائینٹ انسنٹیز " شائع کیا۔ پھر یکے بعد دیگرے وہ دس ناولز کی مصنفہ بن گئیں۔ ان کی تمام ادبی تخلیقات نے ان کی صلاحیتوں کی ترجمانی کی۔ لیکن 2010 میں لکھے جانے والے ناول " فورٹی رولز آف لو " نے انہیں شہرتِ دوام بخشی۔ یہ ناول اپنے آپ میں کسی شاہکار سے کم نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل میرے ایک عزیز دوست وقار کنول نے جو خود روحانی اور ادبی تصانیف کی کانٹ چھانٹ میں کافی ملکہ رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ اس ناول کا تذکرہ کیا۔ میں ان کا نہایت متمنی اور مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے نہ صرف یہ ناول پڑھنے کی ترغیب دی بلکہ ایک عدد اردو ترجمے کی کاپی بھی ارسال کی۔ اور روحانیت کے اس دریا میں اترنے کا موقع عطا کیا۔
اس ناول میں ایک ربط کے ساتھ تمام واقعات کو نہایت خوبصورتی سے پرویا گیا ہے۔ یہ ناول ایک وقت میں دو کہانیاں بیان کرتا ہے۔ ایک طرف تو تیرہویں صدی عیسوی سے منسوب مولانا رومؒ اور شمس تبریزؒ کی کہانی ہے جبکہ دوسری طرف عصرِ حاضر کی پیچیدگیوں سے بھری زندگی کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔ یہ واقعہ صرف مغربی پر کشش دنیا میں رہنے والی محبت سے محروم یہودی عورت کا نہیں ہے۔ بلکہ مشرق و مغرب کی قید سے آزاد ترقی پذیر اور ترقی یافتہ معاشروں میں رہنے والی ہر عورت کا ہے۔ جو اصل کی تلاش میں ہے۔ کافی دفعہ ہم خود اس طرح کے معاشرتی مسائل میں اٹک جاتے ہیں۔ ہمارا دل، ذہن اور جذبات ایک دوسرے سے روح گرداں ہوجاتے ہیں۔ محبت کے جو چالیس قانون ناول کی بنیاد ہیں روحانیت اور محبت کا منبہ ہیں۔ ایک ایک اپنے اندر گہُر بیش قیمت رکھتا ہے۔ اس ناول میں مذہب، روحانیت اور جدیدیت کو کمال مہارت سے یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ الف شفق کے خوبصورت تخیل نے میرے سمیت جدید دنیا کے ہر انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔
محبت جو کہ فطری عمل اور خوش نما احساس ہے۔ وہیں یہ ایک زہر قاتل بھی ہے۔ کسی بھی انسان کو بگاڑنے سے لے کر نکھارنے اور سنوارنے میں یہی جذبہ کار فرما ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے اور اس میں کامیاب ہونا بظاہر جتنا آسان ہے حقیقی زندگی میں اس سے کہیں زیادہ دشوار ہے۔ اس میں ویسے تو کئی راز پنہاں ہیں لیکن پہچان کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جو شخص پہچان کرسکتا ہے اسے سجھنے اور عمل کرنے میں دشواری کا سامنا کم ہوتا ہے۔ ناول میں جہاں تک روحانیت کا ذکر ہے تو اسلام میں روحانیت اور مذہب میں عجیب سا تذبذب پایا جاتا ہے۔ دونوں راستوں کا حاصل اور منزل ایک ہی ہے۔ ناول میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر روحانیت اور مذہب کو یکجا کردیا جائے تو کائنات میں انقلابِ عظیم کی شمع روشن ہو سکتی ہے۔
ایسی چیزیں قلم کے ساتھ ساتھ ہمیشہ دل سے لکھی جاتی ہیں جیسا کہ مثنوی مولانا رومؒ۔ ناول میں کہیں کہیں فلسفہ بھی ملتا ہے۔ ادب کی کثیر رنگی یہ دھنک کیوں نہ دلوں کو موہ لے۔
جدید دور کا ہر فرد اور خاندان اسی ذہنی کشمکش کا شکار ہے۔ وہ زندگی کی گہرائیوں اور حقیقتوں تک رسائی چاہتا ہے۔ محبت ایک کڑی ہے جس نے پوری دنیا کو آپس میں جوڑ رکھا ہے۔ اگر یہ کڑی ٹوٹ جائے تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے۔ محبت اور پھر لا حاصل محبت وہ جذبہ ہے جو آپ کو عشقِ حقیقی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ اور جو شخص اس راستے پر چل پڑا اس کے لیے بند دروازے خود بخود کھلتے جاتے ہیں۔ محبت جذبوں کی طاقت ہے جو زندگی کی ہر جنگ میں کام آتی ہے۔
آخر میں اس شخص کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جس نے اس گوہرِ نایاب سے روشناس کرایا۔ وقار کنول ادبی اور فلمی نوعیت کے معاملات پر سیر حاصل علم رکھتے ہیں۔ ان کی فلمی اور ادبی دلچسپی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ میں خود کبھی کبھی رشک کے ملے جلے جذبات کا شکار ہوجاتا ہوں۔

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔