1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. بونگیاں

بونگیاں

ازمنہ رفتہ میں شغل کچھ اور ہی ہوا کرتے تھے۔ کسی گاؤں میں دو گپی (لمبی لمبی چھوڑنے والے) رہتے تھے۔ وہ روزانہ گاؤں کے مرکزی چوک میں اکٹھے ہوتے اور لمبی لمبی ہانکتے۔ ایک روز وہ حسبِ معمول چوک میں اکٹھے ہوئے۔ آج انہوں نے مقابلہ کرانے کا فیصلہ کیا کہ جو جتنی لمبی چھوڑے گا وہ اس مقابلے کا ونر کہلائے گا۔ پہلے والے نے بولا میرے دادا ابو بتاتے تھے کہ ہمارے پڑدادا کے پاس اتنی بڑی ناند (کھرلی، جانوروں کے چارہ ڈالنے کی جگہ) ہوا کرتی تھی جو مشرق سے شروع ہوتی تھی اور مغرب تک جاتی تھی۔ اس کے اطراف میں جانور بندھے ہوتے تھے۔ فی زمانہ ایسی گپ کے جواب میں دوسرا گپی بولا میرے نانا جی کے پاس اتنی لمبی ڈانگ (ڈنڈا، لاٹھی) ہوا کرتی تھی جو ساتویں آسمان تک جاتی تھی۔ میرے نانا اس لاٹھی سے چاند کو اور سورج کو ایڈجسٹ کرلیا کرتے تھے۔ اتنا بڑا جھوٹ سن کر پہلے والا گپی بولا اچھا تو یہ بتا تمہارا نانا اس لاٹھی کو رکھتا کہاں تھا تو دوسرے والا گپی ہنس کے بولا تمہارے پڑدادا کی کھُرلی میں۔

بد قسمتی سے ہماری سیاسی صورت حال کچھ ایسی ہے۔ ویسے تو اس کی تاریخ ہی بونگیوں پر رکھی ہوئی ہے لیکن جو حال مطلق میں انتہا دیکھنے کو ملتی ہے یا مستقبل قریب میں دیکھنے کو ملنے والی ہے وہ انتہائی غور طلب ہے۔ اور کسی حد تک تشویش طلب بھی۔

گویا پارلیمنٹ تک پہنچنے تک جو فلٹریشن سسٹم نافذ ہے وہ ناکارہ ہو چکا ہے جس سے گزرنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ آپ ایک متنازع اور قابلِ رحم شخص ہوں۔ بسیٹ ہوں گے تو فلٹر آپ کو بولے گا میاں گزر جائیے۔ کرپشن، قتل، زنا بالجبر کے دو چار کیس تو کثرتِ شان سمجھے جاتے ہیں۔ بونگی مارنے کے لیے پارٹی، حسب، نسب، جنس کی کوئی قید نہیں ہے۔ سندھ کے بزرگ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اس حوالے سے نمایاں مقام رکھتے تھے ان کی طبیعت میں یہ عنصر اتنا سرائیت کر چکا تھا کہ قبلہ دن میں ایک آدھ بار میڈیا کے سامنے آکر اس صفتِ پرگھٹ کا بھرپور اظہار فرماتے۔ لیکن بلاول بھٹو نے ذاتی دخل اندازی سے ان کو ہٹا کر نسبتاً محتاط اور سمجھدار وزیر اعلیٰ لگوا دیا۔ جو ابھی پورے سندھ کی اسمبلی میں سب سے با شعور اور پختہ سیاست دان ہے۔ جی ہاں یہ سید مراد علی شاہ کی بات ہورہی ہے۔ کبھی کبھی کمزور ٹیموں میں بھی تگڑا کھلاڑی نکل ہی آتا ہے۔ میاں نواز شریف اور خادمِ اعلیٰ پنجاب سمیت ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی ایک بونگی سے میڈیا میں بیٹھے لوگوں کا ہفتے کا روزگار چلا سکتے ہیں۔ کچھ دن پہلے وفاقی وزیر اطلاعات فرما رہے تھے کہ ہیلی کاپٹر 55 روپے فی کلو میٹر خرچہ سے چلتا ہے۔ اس جوئے فہم کی تلاش میں موصوف گوگل کے معلوماتی سمندر میں غوطہ زن ہو کر گوہرِ نایاب ڈھونڈ لائے۔ اور ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ ایک ہفتے تک سوشل میڈیا پر چھترول کے بعد بھی اپنی اس بونگی پر قائم رہے۔

یہ تو محض ایک نمونہ ہے ان سے بڑے بڑے فنکار پہلے اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ کچھ تو قیامِ پاکستان اور اپنی پیدائش کے بھی معترض ہیں۔ ان کے مطابق وہ واحد شخص ہیں اس کرہ ارض پر جو اس گوہرِ ناپید سے آگہی رکھتے ہیں۔

کچھ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے محض تعلیم کو تب تک ضروری سمجھا جب تک وہ سیاست میں دخل کے قابل ہوگئے۔ اس کے بعد وہ سیاست کو ہی فرضِ عین سمجھنے لگ گئے۔

سیاسی تباہ کاریوں اور آئین شکنی کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ داخلے کے لیے تعلیمی معیار کا نفاذ سابق صدر پرویز مشرف کے ان جملہ کاموں میں شامل ہے۔ جس کی وجہ سے وہ قابلِ نفرت قرار دیے گئے۔

من حیث القوم ہمارا یہ رویہ ہی ہمارے کربناک ماضی اور حال کیساتھ ساتھ خستگی کا شکار مستقبل تشکیل دینے کا موجب ہے۔ وہ کہتے ہیں نہ کی بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔

اور اب ہم اکیلے نہیں رہے اس میدان میں امریکہ جیسے طاقتور ملک کی باگ ڈور ایسے ہی کچھ مسخروں کے ہاتھ آچکی ہے جو بونگی مارنے کو اپنا ذاتی حق گردانتے ہیں۔ لگتا ہے ہماری بد دعائیں رنگ لانا شروع ہوچکی ہیں۔ ورنہ امریکی خود کو اہل شعور سمجھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سیاستدان کم اور بھانڈ زیادہ لگتا ہے۔

ہمارے وزیرِاعظم عمران خان نے بھی اس میدان میں بھرپور انٹری تب ماری جب دو دن قبل جناب نے فرمایا کہ وہ لیڈر، لیڈر ہو ہی نہیں سکتا جو یو ٹرن نہ لے۔ نپولین اور ہٹلر بے وقوف تھے ورنہ یو ٹرن سے جان کے ساتھ ساتھ آن بھی بچا سکتے تھے۔ ادھر بیان آیا ادھر سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے العزیزیہ کی ملکیت کو مسترد کردیا۔ یہ تال میل فی الحال تو تحریک انصاف اور نواز لیگ پر عیاں نہیں ہوا لیکن اگر یہی حال رہا تو دونوں کے خیر اندیش اس ملکیت سے منحرف ہوجائیں گے اور ان کے اس فلسفہ حیات کو سننے کے لیے ان کے حواری بھی نظر نہیں آئیں گے۔

بقول بابا جی اشفاق احمد مرحوم فرسٹریشن اور ہیجان کو تلف کرنے کے لئے آدمی کو ہفتے میں ایک آدھ بار بونگی مارنا چاہئے۔ وہ شاید بونگی کی شدت اور معیار بتانا بھول گئے۔ وہ آج حیات ہوتے تو اپنے فلسفہ پر دل و جان سے عمل پیرا سیاستدانوں کو دیکھ کر ضرور کھل اٹھتے۔

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔