1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. سیاست، سِکھ اور کرتار پور صاحب جی (پارٹ ون)

سیاست، سِکھ اور کرتار پور صاحب جی (پارٹ ون)

15 اپریل 1469 عیسوی کو ننکانہ صاحب میں ایک ہندو پٹواری رائے بھوئی کے گھر پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ بچا مستقبل میں 27 ملین لوگوں کو ایک نئے مذہب سے آشنا کردے گا۔ مختلف جگہوں پر تپسیا، ارداس، اور عبادات کرنے کے بعد گرونانک 1521 میں 52 سال کی عمر میں کرتار پور صاحب تشریف لائے۔ اور انہوں نے ہی وہاں قصبہ بسایا جسے کرتار پور صاحب کا نام دیا گیا۔ 22 ستمبر 1539 کو اسی جگہ پر دنیا سے چل دیے۔ مشہور ہے کہ ان کے روحانی افکار اور انسانیت پسندی سے متاثر مسلمانوں نے کہا کہ یہ ہمارے مذہب کے قریب ہیں لہٰذا ہم انہیں دفنانا چاہتے ہیں جبکہ سکھوں نے کہا یہ ہمارے گرو ہیں لہذا ہم ریتی رواج کے مطابق ان کی چتا کو آگ دیں گے لیکن جب ان کے میت سے چادر ہٹائی گئی تو وہاں بس چادر تھی اور کچھ پھول تھے میت وہاں سے غائب تھی۔ میرا اللہ جانتا ہے کہ یہ بات کتنی مستند اور سچی ہے لیکن بچپن سے ہی ان سے کرامات سرزد ہونا شروع ہوئی تھیں وہ ایک غیر معمولی بچے تھے انہوں نے توحید کا پرچار کیا کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے جو سب کا خالق ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں۔ دوسرا سبق انسانیت کا تھا جس کو سکھ کمیونٹی میں نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اولیاء کرام کی محفل میں رہنے کے سبب وہ اسلام سے زیادہ قریب اور متاثر تھے۔ لیکن سکھ مذہب کی بنیاد ان کے ذاتی نظریے تحقیق اور تجسس کی بنیاد پر رکھی گئی۔ 23 نومبر 2018 کو ان کا 550 واں جنم دن ہے سکھوں میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔

اب آتے ہیں کرتار پور صاحب جی جہاں انہوں نے آخری ایام زندگی گزارے۔ وہ کھیتی باڑی کے پیشہ سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد یہاں دربار صاحب کرتار پور کے ساتھ ساتھ نشان صاحب کی تعمیر کی گئی۔ نشان صاحب ایک ڈنڈا نما پلر ہوتا ہے جس کی چوٹی پے تیر کی طرح کا نشان ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ گوردوارہ عبادت، لنگر اور بقیہ مذہبی رسومات کا حامل ہے۔ لوگ دور سے اندازہ لگا لیتے ہیں۔ 1947 کی تقسیمِ پنجاب میں آدھا پنجاب بھارت اور آدھا پاکستان کے حصے میں آیا۔ حدبندی ایسی ہوئی کہ کرتاپور پاکستان کے حصے میں آگیا اور حکومت نے اس کو ہر لحاظ سے بند کردیا۔ 53 سال بند رہنے کے بعد گرد و راہ 2000 میں حکومت پاکستان کی جانب سے سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اس مسئلے کو لے کر بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی، واجپائی صاحب اور منموہن سنگھ سمیت کئی بڑے عہدیداران پاکستان آتے جاتے رہے لیکن اسے بھارتی سکھ برادری کے لیے کھولنے میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

1974 میں ایک ایگریمنٹ بھی کیا گیا جس میں متروکہ اور مذہبی املاک کی دیکھ بھال اور ان تک دونوں ملکوں کی عوام کی رسائی پر رضا مندی ظاہر کی گئی لیکن اس پر عمل درامد نا ہونے کے برابر تھا۔

کرتار پور صاحب سے ٹھیک چار یا پانچ کلومیٹر دور بارڈر ہے جسے خاردار تاروں سےبند کیا گیا ہے۔ بارڈر کے اس پار بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کی جانب سے ایک آبزرویشن پوسٹ بنائی گئی ہے جس سے سکھ یاتری اپنی مذہبی مقدس جگہ کا دیدار کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا اور جذبات کو گرم کرتے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ ارداس بھی کرتے ہیں کہ مالک کل ان کی رسائی انکی عقیدت سے بھرپور جگہ پر کردے۔ پاکستان میں تحریک انصاف کے آنے سے سیاسی کلچر اور ترجیحات میں تبدیلی آرہی ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو جو بھارتی ریاست پنجاب کے کیبنٹ منسٹر، اور سابقہ کرکٹر بھی ہیں موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کے خصوصی دعوت نامے پر پاکستان تشریف لائے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں کرتارپور صاحب بارڈر کھولنے کا پیغام دیا جس کو سن کر وہ ان سے گلے لگ گئے۔ پھر حکومت اور وزیراعظم پاکستان نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ پاکستان اس معاملے کو لے کر سوچ و بچار کر رہا ہے اور بھارت کی طرف سے ہاں کا منتظر ہے۔

لیکن اس کے بعد پاکستان میں تحریک انصاف اور بھارت میں سدھو صاحب اور ان کی جماعت کانگرس کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد مذاکرات کی از سرِ نو بحالی کی کوشش بھی کی گئی جسے ایک سوچی سمجھی سازش سے ناکام بنا دیا گیا۔

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔