1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. کہاں پیدا ہوگئے ہم

کہاں پیدا ہوگئے ہم

ایک وقت تھا کہ بھارتی سیاست میں پاکستان کا اتنا عمل دخل تھا کہ جتنا دنیا کی سیاست میں امریکہ کا۔ یہ 92 کے آس پاس کی بات ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھارت میں موجود پاکستانی ایجنسیوں کے موجود نیٹ ورک کی پوری پوری فہرستیں بھارتی وزیراعظم کے حوالے کیں۔ یہ دو ٹکے کے بیوپاری سیاستدان جن میں سے اکثر کو اپنے جنم کی وجہ اور جگہ دونوں کا علم نہیں ہے کیا جانیں کہ انہوں نے کیا کیا۔ اسی امن کی آشا میں دشمن نے پاکستان بھر میں اپنے نیٹ ورک مضبوط کرنے شروع کر دیے۔ جمہوریت اور سیاست میں خاجہ پالیسی حکومت کے ساتھ بدلتی ہے۔ دنیا کے مستقبل سے نا بلد کوڑھی کے مریض اس چال کو نہ سمجھ پائے اور پاکستان کو شورش زدہ کرکے دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ یہ جو اصول ہے گورے کا "Divide and Rule" یہ اپلائی کیا گیا اور کبھی اختیارات لینے دینے میں الجھایا گیا کبھی دہشت گردی اور کبھی اس بدبودار اور اخلاقیات سے یکسر عاری سیاست کو بھڑکایا گیا۔ اسی دوران میں ایک جرنیل جو مختلف چینلز پر بیٹھ کے بڑی بڑی ہانکتا ہے وہ بھی کچھ نہ کر پایا۔ اب روتے ہیں کہ فلاں یہ کر رہا ہے بھارت پانی روک رہا ہے وہ یہ کر دے گا امریکہ ایسے کردے گا۔ پاکستان میں سیاست دان کا مطلب پِسر کی نالائق ترین اولاد ہوتا ہے۔ دنیا کے نامور انقلابی اگر سیاست کا سہارا لیتے تو شاید اس قدر نیک نام نہ ہوتے ان میں اگر سیاست کی رغبت تھی بھی تو برائے نام۔ لیکن یہاں تو موج ہے بھائی کوئی روک ٹوک نہیں کوئی پرواہ نہیں۔

اتنی عوام نہیں جتنے راہنما ہیں۔ یہ حکمران دراصل الو ہیں اور عوام ان کی پٹھی ہے۔ پٹھہ درحقیقت شاگرد کو کہتے ہیں۔

ہم ہیں سوائے سوشل میڈیا پر انقلاب برپا کرنے، گالم گلوچ اور اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے ہم سے نہ تو کچھ ہو سکا ہے نہ ہم کر سکتے ہیں۔

اب آئیے اصل مسئلے کی جانب وہ یہ ہے کہ بھارت کی پابندیوں کے باوجود ڈیموں کی تعمیر اور پاکستان پر پانی کی جنگ مسلط کرنا۔ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں دہشتگردوں کی پشت پناہی سے بہت کچھ عیاں ہے۔ اس کا حل کوئی کچھ بتاتا ہے کوئی کچھ۔

اس کا واحد اور دیرپا حل ہے دشمن کی دکھتی رگ۔ اور وہ ہے انتشار جو کہ ہماری بقا کی ضمانت ہے۔ دنیا میں موساد، سی آئی اے اور را جیسی تنظیمیں اپنے ذاتی اور ملکی مفادات کی خاطر کچھ بھی کرا سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ بین الاقوامی لیول کی ڈگری رکھنے والے ہمارے جرنیل جو سیاست میں حقیر سی تبدیلی پر تو کانفرنس بلا لیتے ہیں لیکن اس مسئلے پر خاموش ہیں اور بیان بازی کی حد تک بس۔ ۔

یہی حقیقت ہے پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لئے اب یہ اقدام اٹھانا ہونگے۔ بھارت کے اندر اپنے نیٹ ورک کو مضبوط کرنا ہوگا۔

ورنہ اس ملک میں سیاست دان نے تو رہنا نہیں ہے رہنا آپ نے یا میں نے ہے۔ تو ایسے رہیں گے کیا؟ آنے والی نسل گالیاں دے گی کہ کہاں پیدا ہوگئے ہم!!!

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔