1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. کراچی میٹرو پولیٹن پولیس

کراچی میٹرو پولیٹن پولیس

یہ دوحا ( قطر) اور مارچ 2015 کی بات ہے۔ شام کے وقت میں شہر کے سب سے مصروف ترین علاقے ایرانیان بازار میں مٹر گشت کر رہا تھا۔ یہاں غیر ملکی سیاحوں کا جمِ غفیر تھا۔ ریستورانوں کے اندر اور باہر شیشے کا دھواں ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ گورے، ایشیئن، امریکن، اہلِ عرب جوڑے فیمیلیز مختلف کھانوں اور شیشے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ٹھیک اس جگہ سے کچھ فاصلے پر جامع مسجد تھی۔ وہاں کے لوگوں کے مطابق یہ عیاشی کا قدیم بازار اپنے نام کی وجہ سے مشہور تھا۔ نام رکھنے میں عربوں کی ایران نا پسندی عیاں تھی۔ میں چلتے چلتے چوک میں واقع ایک پولیس سٹیشن کے پاس رک گیا۔ تھانے کے اندر سفید چوغے (روایتی عربی لباس) اور خاکی وردی میں ملبوس دوحا پولیس کے اہلکار ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بازار لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ساتھ ہی بازار کی اگلی نکڑ سے دو گھڑ سوار پولیس والے برآمد ہوئے۔ روایتی چوکیداری کے نظام کی طرز پر عربی لباس میں ملبوس اہلکار گھوڑوں کی مست چال پہ بازار کے چکر کاٹ رہے تھے۔ انہوں نے جسم پر کسی خطر ناک جنگجو جی طرح چمڑے کی کراس بیلٹ باندھ رکھی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے ڈنڈے(بیٹن) تھے۔
ایک لمحے کے لیے میرے ذہن میں سندھ پولیس اور پنجاب پولیس کا خیال آیا تو میں اپنی حیرت پر ہنس پڑا۔ قطر میں آپ کو ہزاروں پاکستانی کام کرنے والے ملیں گے۔ ہزاروں لوگ روزانہ دوحا کی کنیکٹنگ (connecting) فلائٹ سے بیرون ملک امریکہ، یورپ، آسڑیلیا جاتے ہیں۔ لیکن مجال ہے پرندہ بھی پر مارے۔
دوسری مثال لندن ہے جس کی آبادی تقریباً اسی لاکھ سے زائد ہے۔ وہاں میٹرو پولیٹن پولیس کی بنیاد 189 سال پہلے 29 ستمبر 1829 میں رکھی گئی۔ اسکے حاضر سروس اہلکاروں کی تعداد لگ بھگ 43 ہزار ایکٹو ڈیوٹی اور 8 ہزار کے قریب رضا کار اور سپیشل کانسٹیبلز پر مشتمل ہے۔ یہی پولیس ملکہ برطانیہ سے لے کر تمام شہر، سیاستدانوں، 150 سو سے زائد ایمیبسیز، یورپ کے مصروف ترین ائیر پورٹ ہیتھرو سمیت تمام نمایاں اور بین الاقوامی ایونٹس کی سکیورٹی کو یقینی بناتی ہے۔ اس کا سالانہ بجٹ لگ بھگ سوا تین بلین یورو ہے۔ 1829 میں ہی پہلا پولیسنگ ایکٹ بھی بنا اور اس کی کمان کمشنر آف پولیس سے ہوتی ہوئی رفتہ رفتہ میئر آف لندن کے پاس آگئی۔ دنیا کے بدلتے حالات اور دہشتگردی جیسے اقدامات کے تناظر میں2011 کے پولیسنگ ریفارمز میں ایک بورڈ اس محکمے کی سکروٹنی کے لیے قائم کیا گیا۔
کراچی جو کہ سوا دو کروڑ کے لگ بھگ نفوس پر مشتمل ہے۔ جس کا زیادہ تر حصہ چائنہ کٹنگ، لینڈ مافیا، ہاؤسنگ سوسائٹیز، کچی آبادیاں اور کالونیوں سمیت گوٹھوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پولیسنگ کی ابتر صورتحال لمحہ فکریہ ہے۔ کراچی، پاکستان اور معشیت کے درد مند یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ کراچی کو اس وقت ایک نئے پولیس ایکٹ اور کراچی میٹرو پولیٹن پولیس کی اشد ضرورت ہے۔ سندھ پولیس کی کارگردگی، تربیت اور معیار اس لائق نہیں کہ اس سے مزید کراچی کی تباہی برداشت کی جائے۔ وفاقی حکومت ایک بورڈ تشکیل دے جس میں قانون دان، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ عہدیدار اور محنتی پولیس افسران شامل ہوں۔ وہ مختلف ممالک کے پولیسنگ کے نظام کو سٹڈی کر کے ایک رپورٹ اور سفارشات حکومت وقت کو بھیجیں۔ کراچی میٹرو پولیٹن پولیس وفاق کا ایک خود مختار ادارہ ہو۔ اس کا الگ سے پولیس کمشنر ہو۔ انتظامی طور پر اسے چار مختلف زونز میں تقسیم کیا جائے۔ نئے اور جدید پولیس سٹیشن بنائے جائیں۔ اہلکاروں کو ریکروٹ کرنے کے لئے کم از کم تعلیم ایف ایس ای یا ایف اے قرار دی جائے۔ جسمانی طور پر مضبوط، ذہنی طور پر صحت مند، 6 فٹ قد والے نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے۔ کراچی کے عوام کے لیے پچیس پرسنٹ کوٹہ ہو۔ ایک مربوط نظام سے ان کی ریکروٹمنٹ ہو۔ جدید ٹرینگ سنٹر جس میں مختلف اداروں سے انسٹرکٹر بلوا کر ان کی جدید خطوط پر ٹریننگ کی جائے۔ رینک سسٹم یورپی ہو۔ تنخواہیں اچھی ہوں تاکہ رشوت ستانی اور بد عنوانی سے جان چھوٹے۔ چھوٹے کریمنلز کے لیے تیز ترین پراسیکیوشن ہو۔ پولیس کو جدید ہتھیاروں، گاڑیوں اور آلات سے لیس کیا جائے۔ ابتدائی طور پر پچاس ہزار اہلکاروں کی بھرتی کا سسٹم وضع کیا جائے اور اس میں ایک لاکھ تک کی گنجائش رکھی جائے۔ سیف سٹی پراجیکٹ میں جدید کیمرے اور ٹیکنالوجی بھی میٹروپولیٹن پولیس کے سپرد ہو۔ ہر قسم کے سیاسی اثرو رسوخ پر سخت ترین احکامات اور ان پر عمل درآمد ہو۔ آہستہ آہستہ اہلکاروں کے اضافے سے رینجرز اور سندھ پولیس کو اس عمل سے دور کردیا جائے۔ اس پر چیک رکھنے کے لیے ایک غیر جانبدارانہ بورڈ تشکیل دیا جائے اور ماہانہ بنیادوں پر ادارے کی کارکردگی کا جانچا اور اس میں اصلاحات لائی جائیں۔ یہ ٹیسٹ کیس آہستہ آہستہ ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی نافذ کیا جائے۔ 2002 تک ملک میں 1861 کا پولیسنگ ایکٹ نافذ العمل رہا۔ جو کہ ہماری شعوری ابتری کی واضح مثال ہے۔ یہ تبدیلی سرکار کا کراچی، اور ملکِ پاکستان کی عوام پر بڑا احسان ہوگا۔ اگر آپ یہ نہیں کرسکتے تو چپ چاپ استعفیٰ دیں اور گھر بیٹھ جائیں کیونکہ دعوے تو سب ہی کرتے ہیں عمل کوئی نہیں کرتا۔

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔