1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. خان صاحب حوصلہ

خان صاحب حوصلہ

اگر ہم اپنی تاریخ کو جو کسی طور بھی اچھی نہیں رہی ہے کھنگالیں اورآج سے ٹھیک پچاس سال پہلے کے حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو آج اور گزرے ہوئے کل میں صرف اتنا فرق ہے کہ ان ہی دنوں میں ایک فوجی آمر نے سیاسی توبہ کرلی تھی اور مجبوراً اس ملک مظلوم کی باگ ڈور پھر ایک جرنیل صاحب کے حوالے کرگئے تھے۔ صدر ایوب سیاسی طور پر کمزور تھے اور تھوڑے جذباتی بھی۔ یہ چیز ان کا اقتدارِ اعلیٰ، ناموس او ر سب کچھ کھا گئی۔ یحیٰی خان نے بخوبی ان سے اقتدار ہتھیا لیا تھا۔ ایسا ہی انتشاری سماں تھا جب وہ رخصت ہوئے۔ غداریاں، گرفتاریاں، بیماریاں سب مماثل تھیں۔ " مسیحا" سے" ایوب کتے" تک کا سفر ایسے نہیں ہوا تھا۔ ان کی ضد، انا، جلدی ریاستی امور پر نظر نہ رکھنے عادت ان کے زوال کی وجہ بنی۔
یہ سب ان کو لے ڈوبا۔ ملک بھی ٹوٹا، نقصان بھی ہوا، جنگ بھی ہارے، جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ اب یہ ملک کسی کی انا کا محور نہیں ہو سکتا خدارا سیاست کو عوام الناس کے اعصاب پر سوار مت کریں۔ کسی کرپٹ، کسی انتشاریے، کسی غدار کو مت چھوڑیں لیکن روایتی طریقوں سے اجتناب کریں۔ یہ اکیسویں صدی ہے اس کی سیاست بھی اس صدی کی مناسبت سے ہونی چاہئے۔ اس روایتی طریقے سے آپ اپنی تمام عمر بھی لگے رہیں تو اس قوم کو بندے کے پتر نہیں بنا سکیں گے۔
سوائے خارجہ پالیسی کے جہاں آپ کو شاہ محمود قریشی جیسا جہاں دیدہ سیاستدان میسر ہے ہر شعبے میں آپ بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ ایک سال ہونے کو ہے اور ابھی تک آپ قانون بھی نہیں بنا سکے۔ آپ اپنے پانچ سال میں سب کچھ کرنے کا خواب مت دیکھیں۔ یہ وکٹ بلے باز کے لیے ساز گار نہیں ہے۔ یہاں ان سونگ، آؤٹ سونگ، باؤنس، یارک ہر طرح کی گیند کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کے بیشر کھلاڑی تو ایل بی ڈبلیو ہو چکے۔ اور جو ماندہ وکٹ پر کھڑے ہیں تو ان کو تیز کھیلنے کا مشورہ نہ دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ پچاس اور یا اننگ بھی پوری کرنے سے قاصر ہو جائیں۔
دورہ امریکہ میں تاخیر کا خمیازہ بھی ہم نے ہی بھگتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ انہوں نے جو آپ کی تبدیلی اور انا کا کچومر نکالا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ ایک تیسری دنیا کے پسماندہ ملک کے وزیراعظم کو یہ باتیں جچتی نہیں ہیں۔
انکل سام آپ کے سامنے مطالبات کے نئے پلندے رکھنے والا ہے۔ اور شاید آپ بھی روایتی عذر داریوں کے پیش نظر ان کی ہاں میں ہاں ملا آئیں۔ اور ایک نیا عذاب اس قوم کے سر پر مسلط ہوجائے۔ آپ کی معاشی پالیسیوں میں سوائے ناکامی اور روایتی ہتھکنڈوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے کے کمزور طبقے کا جینہ دوبھر ہوچکا ہے۔ کہیں چو این لائی یا ماؤزے تنگ سے متاثر بھٹو شہید کی طرح آپ کا خبط بھی اس پژمردہ قوم کو پسماندگی کی نئی گہرائیوں میں نہ دھکیل دے۔ آپ کے فیصلوں اور ان سے انحراف کے بعد جذباتیت کا جو مرکب ان کے پیچھے نظر آتا ہے وہ کسی فائر بال سے کم نہیں ہے۔ اب تو آپ کے چاہنے والوں نے بھی آپ کو کوسنا شروع کردیا ہے۔ یہ وقت بہت نازک ہے اگر آپ نے ہر چیز کو تباہ کاری سے نہیں روکا تو بقول آپ کے یہ قوم آپ کا پہلے والوں سے بھی برا حشر کرے گی۔

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔