1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عامر ظہور سرگانہ/
  4. ذرا ادھر بھی میرے وزیر اعظم (بلوچستان سے)

ذرا ادھر بھی میرے وزیر اعظم (بلوچستان سے)

وہ پیدائشی باغی نہ تھا۔ وہ کہنے لگا میں چھوٹا سا تھا جب میری والدہ زچگی میں صرف اس لیے جہانِ فانی سے کوچ کرگئی کہ وہ صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کی ایک دور دراز گوٹھ میں پیدا ہوئی تھی۔ میرا باپ ماہی گیر تھا وہ مہینہ مہینہ بھر گھر سے دور رہتا ٹھیکیدار سے پٹے پر کشتی لیتا اور مچھی پکڑنے نیلے ساگر میں اتر جاتا۔ جہاں وہ دن کو جال ڈالتا اور صبح صادق کے وقت کھینچتا اور پندرہ دن یہی سلسہ جاری رہتا۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر نیلے سمندر کی لہروں سے لڑ جھگڑ کر اپنا اور خاندان کا پیٹ پالتا۔ اکثر تو ایسا ہوتا کہ کوئی مال بردار جہاز یا ٹینکر رات گھپ اندھیرے میں لاکھوں مالیت کے پٹے کے جال کو تار تار کرتا اپنی منزل بجانب رواں دواں رہتا لاکھ چیخ و پکار کرتا لیکن مشکل سے کشتی اور جان کی بچت ہوتی۔ تو پھر کیا ہوتا جو رقم منافع میں آتی وہ جال کی مرمتی میں صرف ہو جاتی اور ہم پھر وہیں کے وہیں۔

جس رات ماں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر سسک سسک کر جان دے رہی تھی میں سنسان گوٹھ میں مدھم دیے کی لو میں نیم گدلے پانی کا گلاس تھامے رو رہا تھا کہ ماں پانی پی لو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بابا آتے ہوں گے۔ گاؤں کے وڈیرے نے کہا گاڑی کا بندوبست کرنا بہت مشکل ہے پہلے یہاں سے پسنی جانا پڑے گا پھر وہاں سے گاڑی مل سکتی ہے اور ناہموار ٹوٹے پتھریلے راستے کی وجہ سے کراچی جانے کے لیے کم از کم 10 سے 12 گھنٹے درکار ہیں۔ اور دائی نے بولا ہے آپریشن ہوگا خوراک مناسب نہ ملنے کی وجہ سے بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنے خالق کے پاس پہنچ چکا ہے۔ یہ بات ماں کو اور تڑپا دیتی اور ساتھ ہی ساتھ میں بھی رونا شروع کردیتا۔

علاقے کے سردار بہت اچھے تھے وہ کوئٹہ میں رہتے تھے شہر میں ان کی حویلی تھی لیکن وہ زیادہ تر وقت اسلام آباد میں ہی گزارتے۔ ابا ایک دو دفعہ ان کے پاس ملنے گئے لیکن منشی نے بتایا تھا کہ صاحب بہت ضروری کارِ سرکار کے لیے کوئی میٹنگ اٹینڈ کرنے اسلام آباد گئے ہیں۔ وہ پانچ سال میں صرف ایک بار نظر آتے تھے وہ بھی بڑے انتظار کے بعد جب الیکشن آتے تو وہ کہتے تھے اس بار سرکار آپ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت سیریس ہے۔

ہم ان کی ولایتی گاڑی پر بیٹھ کر پولنگ دفتر جا کر ووٹ ڈالتے لیکن پھر پتہ نہیں وہ کامیاب ہونے کے بعد اتنے مصروف ہو جاتے کہ گھر سے باہر بہت کم دیکھے جاتے۔ دو دہائیوں تک سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ ماں تو چلی گئی انہی ہاتھوں میں اس نے دم توڑا تھا۔ جب والد گھر آئے تو ان کے استقبال کے لیے فقط میں جھونپڑی کے پھاٹک پر کھڑا پہاڑی پر نیم اوجھل پتھروں کی ڈھیری کی طرف دیکھ رہا تھا۔

والد نے نہایت پشیمانی اور بے چارگی میں مجھے گلے لگایا اور پھر آنکھوں سے آنسو ایسے گرے جیسے تسبیح کی ڈور ٹوٹنے سے اس کے منکے پھسل جاتے ہیں۔

پھر ایک دن میرا ایک دوست ایران سے آیا تھا کہنے لگا ہم نے اپنی محرومیوں کا حکومت سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا ہے دور دراز کے ایک سردار اس تنظیم کے سربراہ ہیں تم اگر ساتھ چلنا چاہتے ہو تو چلو میں ان کو ابھی فون کردیتا ہوں اور ساتھ ہی ایک بڑا سا فون جو کانچ سے بھی نازک دکھائی دیتا تھا جیب سے نکالا۔ میں پھر بھی راضی نہ ہوا تو وہ جھٹ سے بولا وہ بڑے امیر آدمی ہیں مخلص بندے کی قدر کرتے ہیں اگر تم ان کے ساتھ ہوگے تو بہت پیسہ بھی ملے گا۔ دھرتی ماں سے غداری کا من نہیں کر رہا تھا سو میں نے کہا سوچ کے بتاؤں گا۔ پھر لالچ اور ننگے اور خالی پیٹ نے مصلحت کو بنیاد بنا کر بغاوت پر آمادہ کر لیا۔ دوست نے سردار سے ملوایا تو بہت خوش ہوا اور بولا تم اپنے علاقے کے جتھے کے سربراہ ہو گے اور پھر ٹریننگ کے لیے ایک بیابان جگہ بھیج دیا گیا۔ ہم کل چار لوگ تھے۔

من ابھی بھی بوجھل بوجھل سا تھا پہلی رات تھی اچانک سے چاروں طرف سے گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر چٹان کی اوٹ میں چھپ گیا۔ ایف سی والوں کو کسی نے اس جگہ دہشت گردوں کی اطلاع کی تھی باقی سب ساتھی حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔ میں سہمہ ہوا اوٹ میں پڑا جیسے ہی سکوت چھایا میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور سیدھا سردار کے گھر پہنچ گیا اسکو اطلاع دینے پر بہت افسردہ ہوا مجھے بولا تم تیاری کرو تم ایران جاؤ گے تمہاری تربیت وہاں ہوگی یہاں کسی بھی وقت دھر لیے جاؤ گے یا مار دیے جاؤ گے۔ پھر میں ایک جتھے کے ساتھ بارڈر پار چلا گیا کافی عرصہ وہاں اسلحہ چلانے کی تربیت حاصل کی ہمارا استاد چال ڈھال سے ایرانی یا بلوچ دکھائی نہ دیتا تھا لیکن روانی سے اردو بولتا تھا۔ بلوچی بھی جانتا تھا۔ کئی بار پوچھنا چاہا پر اس نے ایسی نوبت ہی نہ آنے دی۔ پھر ایک روز ہمارے پورے جتھے کو ایک اجنبی راستے اور پہاڑوں کے درمیان ایک ٹھکانے پر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں سے یہ سلسہ چلا اور آج بات یہاں تک آن پہنچی لوگ ہمیں باغی اور دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ ہم نے کئی حملے کیے۔ سینکڑوں لوگوں کا خون بہایا لیکن اطمینان حاصل کی بجائے غارت ہوتا گیا اور میں باغی دہشت گرد بن گیا جس نام سے مجھے آج کل پکارا جاتا ہے۔

عامر ظہور سرگانہ

عامر ظہور سرگانہ کا تعلق گوجرہ سے ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد  سے ایم اے صحافت کر رہے ہیں۔ وہ ایک شاعر، لکھاری، کالم نگار، مترجم اورسپیکر ہیں۔ عامر اشفاق احمد مرحوم، سید قاسم علی شاہ، آفتاب اقبال، جاوید چودھری اورعاشق حسین کوکب مرحوم کو اپنا ناصح مانتے ہیں۔