1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عبد الوہاب/
  4. سندھ کے سیاستدان اور مسلم لیگ (ن) کا رویہ

سندھ کے سیاستدان اور مسلم لیگ (ن) کا رویہ

جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے، لیکن اب ایک اضافہ یہ ہوا ہے کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے مثلاً کوئی سیاسی اتحاد قائم کیا جا ئے یا کوئی معاہدہ کیا جا ئے اس کی پابندی ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ سیاست ہے۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اس لیئے اتحاد میں شامل ہوتے ہیں کہ ان کی طاقت بڑھ سکے۔ یوں تو آج تک ملک میں بے شمار سیاسی اور مذہبی اتحاد ہوئے اور ختم ہوئے ہیں۔ لیکن آج ایسے اتحاد کی بات کریں گے وہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سندھ کے سیاستدانوں سے کیا گیا جس میں کچھ وعدے کیئے گئے۔

1997 کے عام انتخابات سے پہلے جو نگران حکومت بنی تھی اس کا سربراہ جناب غلام مصطفیٰ جتوئی کو بنایا گیا تھا۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں ہمارے وزیر اعظم جتوئی صاحب ہونگے۔ لیکن انتخابات جیتنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ لیکن پھر 1999 میں ان کی منتخب حکومت ختم کردی گئی۔

اس کے بعد 2013 کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سندھ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے سندھ کی مختلف جماعتوں اور گروہوں کے سیاستدانوں سے رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میاں نواز شریف نے پی پی مخالف سیاستدانوں بشمول قوم پرستوں کے اور ایم۔ کیو۔ ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور ان کو اپنے سیاسی اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس بات چیت کے نتیجے میں سندھ کے مشہور اور پرانے سیاستدان جناب ممتاز علی بھٹو، لیاقت علی جتوئی اور پیپلز پارٹی چھوڑنے والے عبد الحکیم بلوچ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے اور انتخابات جیتنے کے بعد مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو نیشنل پیپلز پارٹی کے غلام مرتضیٰ جتوئی اور مسلم لیگ (ن) کے پیر پاگارہ نے بھی مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کا اعلان کیا جس کے بعد این پی پی کے غلام مرتضیٰ جتوئی کو وفاقی وزیر صحت اور عبدالحکیم بلوچ کو ریلوے کا وزیر مملکت مقرر کیا گیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد سندھ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزراء، غلام مرتضیٰ جتوئی اور عبدالحکیم بلوچ کی طرف سے یہ شکایات کی گئیں کہ ان کو سندھ کے معاملات میں بھی نظر انداز کیا جارہا ہے اورکابینہ کی اہم میٹنگس میں بھی نہیں بلایا جاتا اس طرح کی شکایات میڈیا کے ذریعے مسلسل آتی رہیں۔ دوسری طرف ممتاز علی بھٹو اور لیاقت علی جتوئی بھی کھل کر اس طرح کی شکایات کرتے رہے کہ مرکزی حکومت انہیں مسلسل نظر انداز کرکے اپنے کئے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ آخر کارعبدالحکیم بلوچ وزارت اور ایم۔ این۔ اے کی سیٹ سے استعفیٰ دے کر واپس پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی، لیاقت علی جتوئی صاحب بھی پی ٹی آئی میں شامل ہوگئےہیں۔ البتہ ممتاز علی بھٹو صاحب ابھی خاموش ہیں۔ وہ ہو سکتا ہے دوبارہ قوم پرست اتہاد کو منظم کرنے کی کوشش کریں

اس سےایک بات بہر حال ظاہر ھو گئی ہے کہ آجکل سیاست کسی اصول کے تحت نہیں بلکہ ایک کھیل کے طور پر کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک پرانے اور تجربہ کار سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کی کہی ہوئی ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ "ہماری جماعت یعنی مسلم لیگ (ق) چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے والے لوگ اب بھی ہمارے ہی ہیں اور انہیں ہم ہی نے بھیجا ہے اور وہ اپنا کام کرکے واپس آئیں گے۔

اسی پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ایک بات صاف نظر آرہی کہ اس وقت ملک میں سیاست میں قیادت کا فقدان ہے اور ملک کو اس وقت ایک ایسے مدبر سیاستدان کی ضرورت ہے جو عوام کی صحیح رخ میں رہنمائی کرسکے اور ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔