1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. بھارت میں "پاکستان زندہ باد" کی گونج

بھارت میں "پاکستان زندہ باد" کی گونج

مقبوضہ کشمیر کے بعد زندہ باد پاکستان کے نعروں کی گونج بھارتی سرزمین تک پہنچ گئی، اتر پردیش میں کانگریس پارٹی کے اڑی حملے کے خلاف ریلی کے دوران فضاء پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی۔ مراد آباد میں نکالی گئی ریلی میں کانگریس پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، ریلی کے شرکا پہلے اپنی پارٹی کی حمایت اور مودی کی مخالفت میں نعرے لگارہے تھے کہ اچانک راہول گاندھی کی موجودگی میں فضاء پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی۔ اس سے پہلے تمام تر مظالم اور بربریت کے باوجود کشمیر میں بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجتے رہے ہیں، کشمیریوں کی جانب سے مختلف تقاریب کے دوران سبز ہلالی پرچم بھی لہرائے جاچکے ہیں۔

بھارتی شہر بنگلورو میں شہریت قانون کے خلاف ریلی میں "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ لگانے والی لڑکی امولیہ لیونا کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے 14 دن کی عدالتی حراست میں بھی بھیج دیا گیا۔ امولیہ لیونا نے آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین سربراہ اسدالدین اویسی کی شہریت قانون مخالف ریلی میں ان کی موجودگی میں "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ لگایا تھا۔

اس کے ساتھ ہی امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورہ بھارت کے دوران کہا ہے کہ پاکستان اچھا دوست ہے، جس کا دہشت گردی کے خلاف کردار مثبت ہے، تعلقات میں بڑی پیش رفت کے آثار دیکھتا ہوں، امید ہے خطے میں کشیدگی کم ہوگی، پاکستان کے ساتھ بہت مثبت انداز میں کام کر رہے ہیں، ہمارے تعلقات شاندار ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب کے دوران پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف کوششوں کی تعریف جس پر بھارتی مجمعے کو سانپ سونگھ گیا۔

اس طرح کے واقعات بھارت میں ہونا، دراصل مودی سرکار کو آئینہ دیکھانا ہے، کہ مودی اپنے ہی شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ، عوامی جگہوں، خاندانوں اور دفتروں میں ہراساں اور جنسی تشدد کا نشانہ بنانا ایک معمول ہے ہر جگہ عدم تحفظ کی فضاء ہے۔ عوامی مقامات ہوں یا پھر پبلک ٹرانسپورٹ، ہر جگہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سیکولرازم اور مساوی حقوق کے نام نہاد علمبردار بھارت میں آج بھی امتیاز ی سلوک برتا جاتا ہے، گزشتہ چند برسوں میں پیش آنے والے زیادتی کے پے در پے واقعات نے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ بھارتی اخبارات میں زیادتی کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔

مودی چلے تھے آزاد کشمیرکو فتح کرنے، لیکن ہو الٹ رہا، مودی کے ہٹ دھرمی، وادی کشمیر میں بدترین ظلم و تشد د، متنازعہ شہریت بل نے تلاطم پیدا کردیا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے، متنازعہ شہریت بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر تشدد کرنے کے ساتھ ہی مودی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر تباہی کی طرف گامزن ہیں۔

بھارت کی تباہی نریندر مودی سے شروع ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ ایسے شخص کے ہاتھوں یہ انجام کو بھی پہنچ کر رہے گی، جب سے مودی نے دہلی کا تخت سنبھالا ہے کشمیریوں کی آزادی کو طاقت سے کچلنے، متنازعہ بل، جنگی جنون، پاکستان سے محبت کرنے والے پر مقدمات، جامعات کے طلباء /طالبات پر تشدد، ہٹ دھرمی، مذاکرات سے راہ فرار، بے گناہ انسانوں کا قتل عام، ہر قسم کی جنونیت، سفاکیت و بربریت مودی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔

مودی کی پالیسیاں خود بھارت کے لیے ناسور بن رہی ہیں، کیونکہ انفرادی رویے کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں، چونکہ یہی مجموعی معاشرتی رویوں کی بنیاد بنتے ہیں، جب انفرادی رویے مجموعی رویوں پر حاوی ہونے لگیں، وہ ہوں بھی منفی، تو معاشرہ کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے لیے اعتدال، مساوات بہترین پالیسی ہے، جو نہ صرف اس ملک کو منفرد بناتی ہے، بلکہ معاشرہ اور ملک کے لیے نیک نامی، ترقی کا سنگ میل ثابت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مودی کی طرز پر انتہائی پسندی، ناانصافی پر مبنی نظام ہو تو وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا، اور بالآخرتباہی ہی اس کا مقدر بنتی ہے۔

تاریخ ِ انسانی گواہ ہے کہ مودی سرکار کی طرح کسی قوم یا حکمران نے انتہائی پسندی پر مبنی رویہ کو ترویج کیا تو ممکن ہے وقتی فائدہ ہو لیکن آخر کار ناکامی، تباہی ہی مقدر بنی ہے۔ جن کی تابناک مثال ہلاکو خان، سٹالن اور ہٹلر ہیں، جنہوں نے وقتی فائد ے اٹھائے لیکن اقوام کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا، موجود وقت میں نریندر مودی اور ان کے رفقاء کے دِلوں میں نہ صرف مسلمان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہے، بلکہ ان کی سیاست کی بنیادی ہی انتہا پسندی پر ہے۔ مودی کا سارا ماضی اور سوچ اسی طرز عمل پر مبنی ہے جسکا عملی مظاہرہ اس نے گجرات اور اب بھارت میں ان کی مسلم دشمن پالیساں جو بظاہر مسلمانوں اور پاکستان کو نشانہ بنانا ہے۔ لیکن انتہاء پسندانہ سوچ سے خود ہندو معاشرے کے نچلی ذات کے طبقات بھی غیر محفوظ ہیں۔

وادی کشمیر میں تاریخ انسانی کا بدترین لاک ڈاون ہو، علاقہ کی کشیدگی، جنوبی ایشیاء ہی نہیں، دنیا کے امن کو لاحق خطرات، بھارتی پالیسی سے شدت پسندی بڑھ ہی رہی ہے، 5 اگست کے بعد سے وادی کا گاؤں گاؤں، قریہ قریہ عقوبت خانہ بنا ہوا ہے۔ ذرایع ابلاغ پر قدغن بھی بدستور موجود ہے۔ انٹرنیٹ سروس معطل اور میڈیا پابند ہے۔ خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے اور لوگوں کو اسپتالوں تک رسائی نہیں ہے۔ کشمیری بچوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہے۔ کاروبار تباہ ہوچکے، بے روزگاری انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ بنیادی انسانی ضروریات کی اشیاء کا فقدان ہے۔ وادی میں انسانی بحران اور انسانی المیے نے بد ترین شکل اختیارکر لی ہے۔ انسانیت تڑپ رہی ہے، اور انسانی المیہ جنم لینے کے امکانات موجود ہیں۔ جو بھارت کے سیکولر ازم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعووں پر طمانچہ ہے۔

بات کشمیر تک محدود نہیں، کبھی گائے ذبح کرنے کا مسئلہ، کبھی پاکستانی فنکاروں اور کھلاڑیوں کو نشانہ بنایا جا تا ہے۔ اور پھر بھارتی آرمی چیف اور خود مودی کے پاکستان دشمنی اور نفرت پر مبنی بیانات، منفی پروپیگنڈا ایک معمول بن چکا ہے۔ مودی سرکار کا یہ رویہ ایک ایسی ریاست کا قطعاً علمبرار نہیں جو اپنے آپ کو سیکولر بھی کہے اور دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ بھی ہو اور اپنے ہی شہری غیر محفوظ بھی ہوں۔ ان کی اس پالیسی سے ہندوستان کا مکروہ اور دوغلا چہرہ دُنیا کے سامنے بے نقاب ہو رہا۔

دنیا جان چکی کہ مودی کے جنگی جنون نے پاکستان کی ہر مخلصانہ، امن کی خواہش کا جواب جارحیت اور نفرت انگیز رویے سے دیا، جس سے پاکستان کا یہ موقف درست ثابت ہو رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر دو ممالک کا ہی نہیں بلکہ خطہ کے امن کا بھی راستہ ہے اور مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت انتہاء پسندانہ، جارحیت، نفرت انگیز سوچ پر گامزن ہے، جس کا بنیادی ہدف وطن عزیز پاکستان ہے۔ دُنیا ہندوستان کے بارے میں نقطہ نظر زیادہ واضح ہو رہا ہے کہ اپنے آپ کو ایک سیکولر ریاست کے طور پر پیش کرنے والا بھارت اپنے بڑھتے ہوئے شدت پسندانہ رویوں کی بدولت دُنیا بھر کے سامنے اپنی اصل صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔

مودی کی پالیسیوں کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، سیکولر ریاست اپنا بھرم رکھنے میں بری طرح ناکام ہو چکی۔ جن میں اس کے اپنے عوام کے بنیادی حقو ق محفوظ نہیں رہے، نہ ہی کسی مہمان کی کوئی عزت رہی۔ اگر واقعی مودی سرکار اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرتی ہے تو پھر کشمیر میں آزادانہ، منصفانہ استصواب رائے سے راہ فرار کیوں؟ تاریخ کا بدترین لاک ڈاون کیوں؟

عالمی برادری اگر واقعی جنوبی ایشیاء میں مستقل اور پائیدار امن کے خواہاں ہیں تو انہیں بھارت کی شدت پسندانہ، جارجیت، منفی پالیسی کو لگام دینے کے ساتھ پاک بھارت تنازعات کے تصفیہ کے لیے ٹھوس، بامعنی کوشش کرنی چاہیے۔ مسئلہ کشمیر تنازعات کی جڑ ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بہت جلد ہر بھارتی فرد کی زبان پر یہ نعرہ ہو گا، پاکستان، زندہ باد (ان شاء اللہ)۔

عابد ہاشمی

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔