سوشل میڈیا پر آئے روز انسانیت اور پھر اساتذہ کی تذلیل معمول بن چکا۔ وہ معاشرہ کبھی بہار نہیں دیکھ سکتا، جس کے پاس استاد کی عزت احترام نہ ہو۔ تاجدارِ ختمِ نبوت ﷺ نے اپنا تعارف کرواتے وقت جس عظیم پیشہ کو منتخب فرمایا۔ اِس پیشہ کی تذلیل ہمارے لئے تباہی کا سامان ضرور ہے۔ اظہارِ رائے اور تضحیک میں فرق لازم ہے۔ آج ہم میں سے کوئی بھی کسی اعلیٰ مقام پر فائز ہے تو اس میں استاد کا کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اُستاد کی اہمیت پر لکھنا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ جنہوں نے استاد کا ادَب نہیں کیا کامیابی ان کے قریب سے بھی نہیں گزرتی۔ تعلیم کا بنیاد مقصد ہی اَدب ہے۔ اگر ہم پڑھ لکھ کر بھی اَدب سے عاری ہیں تو پھر یہ ڈگریاں صرف کاغذ کے ٹکڑے کے سوائے کچھ نہیں۔ بالمعوم انسانیت اور بالخصوص ایک استاد کی تذلیل کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ معلم کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔
مشہور سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن استاد کی اہمیت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: "تخلیقی اظہار اور علم میں خوشی بیدار کرنا استاد کا اعلیٰ فن ہے"۔ اسی طرح نامور رومی بادشاہ سکندر اعظم استاد کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں: "میں زندگی گزارنے کے لیے اپنے والد کا مقروض ہوں، مگر اچھی زندگی گزارنے کے لیے اپنے استاد کا مقروض ہوں"۔
ایسے ہی ہزاروں افراد جو علوم و فنون کی بلند و بالا چوٹیاں سر کرچکے ہیں، اپنی کامیابی کا سہرا اپنے اساتذہ کو دیتے ہیں۔ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کامیابی کے قدم چومنے کے بعد ہی یہ بات صحیح معنوں میں عیاں ہوتی ہے کہ جس فلاح پر انہیں قادر مطلق نے آج پہنچایا ہے، اس کی معراج اسباب کی دنیا میں استاد ہی ہوتا ہے۔ ایک استاد اپنے شاگرد کو نیلے فلک پر اونچی پروان میں دیکھنا چاہتا ہے، گہرے سمندر کی تہہ میں غوطہ لگا کر موتی چنتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔
ترقی کی ان منازل پر دیکھنا چاہتا ہے، جہاں شاید وہ خود بھی نہ پہنچ پایا ہو۔ پھر دُنیا دیکھتی ہے کہ وہ شاگرد اپنے استاد کی محنت، شفقت اور دعاؤں سے ایسے کارنامے انجام دیتا ہے۔ جو اس استاد کے مقدر میں تو نہیں ہوتے، مگر شاگرد کے مقدر میں ان کارناموں کے پیچھے وہ استاد ہی ہوتا ہے۔ اپنے محسن کو فراموش کرنا فطرت کی سراسر مخالفت ہے۔ انسانی فلاح و بہبود کو مقصدِ حیات سمجھنا اور مہذہب انسانیت کو فروغ دینا ہے۔ اس کامقصد قوموں کو انسانی صفات سے متصف کرنا ہے کیونکہ انسان کی خدمت ہی ذریعہ نجات ہے۔
سوشل میڈیا کی تشہیر میں اَدب کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جس سے انسانیت کی تذلیل ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ ادب انسان دوستی کے بغیر تخلیق ہوہی نہیں سکتا تو کیا یہ کہا جائے کہ ادب اعلیٰ ادب انسانی رشتوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتا تو کیسا؟ قدیم ترین رُومی شاعرLUCRETTUSNY نے دیو مالا، اساطیر الاولین کو ماننے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا ان کے پاس دنیا چلانے کی کوئی طاقت سے ناپیدا ہوئی اور نہ چل سکتی ہے، اُس زمانے میں ایک اللہ کو ماننے کا نظریہ نہیں تھا۔ اُس کے بقول دُنیا صرف انسانی رشتوں ہی کامیاب ہو سکتی ہے اُس کا ماننا تھا کہ دُنیا میں امن بھائی چارے، انسان دوستی اور سچائی یہ سے قائم ہو سکتا ہے۔ صدیوں بعد نے ثابت کر دیا کہ بنائے ہوئے خداؤں کا کوئی وجود نہیں، اس عظیم شاعر کو پہلا انسان دوست شاعر مانا جاتا ہے۔
اٹلی کا نیا لاطینی اَدب یعنی نیو رومی اَدب کا بانی FRANCESCO PETRARCH نے کہا کہ انسان دوستی بغیر کالایسکی روایت کے بے معنی ہے۔ اسی لئے اُس نے قدیم متن کو پڑھا اور لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔ اُسے ہیومینزم کی تحریک کابانی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ DANTE نے بھی اعلیٰ معیاری ادب اس تحریک کے بدولت تخلیق کیا۔ Baccaccio نے اپنی ایک سو کہانیوں کی کتاب کا موضوع انسانیت رکھا۔ اسی دور میں SHAKESPEARE کے ڈرامے مثالی اور معیاری قرار دیئے گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہیومینزم کی اصطلاح 19صدی کے ایک اُستاد NIETHAMMERنے واضح کی THOMAS MAREPEI YOT نے اسے فروغ دیا SHAKES PEARE PHILIP SIDENY نے اس کے ذریعے انقلاب شاعرانہ طرز تحریر برپا کیا۔ اس پر دنیا میں بے شمار لکھنے والے ہیں جو بیان کرنا ناممکن ہے۔
اَدب اور انسانیت لازم و ملزوم ہیں۔ اَدب، اخلاقی رویوں اور قدروں پر مبنی ہے، لچک دار، ترقی پسنداور وسیع النظر سوچ پیدا کرتی ہے۔ ادب میں بشر دوستی انسانی فطرات کا گہرا مطالعہ کرتی ہے۔ اس نے انسان کی صفت کو اہمیت دی، کائنات کی سچائیاں بیان کیں یہ ہر شخص کی باطنی اور نفسی کیفیات پر مبنی ہے۔ ہمارے اندر کے سچ کا اظہار کرتی ہے۔ انسانی نفسیات سب سے زیادہ انسان دوستی کے ذریعے سے فروغ دی گئی ہے۔ اس نے انسان کو تین خانوں میں بانٹا
1۔ بنیاد پرست ہوتا ہے
2۔ انسان بدلتا ہے
3۔ انسان اٹل ہوتا ہے۔
اس کا یہی نظریہ ستاروں کے علم سے ظاہر ہوتا ہے۔ تجربے سے یہ بھی ثابت کیا گیا کہ اکثر لوگ ہر جگہ ایک سے ہوتے ہیں۔ اُنہیں کسی بھی سانچے میں ڈھالا جائے وہ وہی رہتے ہیں۔ اُن کے اندر کی ذات، انا اور خودی سماجی طاقتوں اور قوتوں پر غالب آجاتی ہے۔ سائنس نے انسان کو Micro Cosm قرار دیا، جو مٹی، ہوا، پانی اور آگ سے بنا ہے۔ ہیومینزم کی اصطلاح نے کچلے ہوئے انسانوں کی عزت بحال کی۔ اُن کے حقوق کے لئے آواز بلند کی، غلامی سے نجات دلائی۔ اس کے لکھنے والوں نے جھگڑوں پر مبنی جنگوں کو ختم کرکے خطے میں امن قائم کیا۔ یورب کے کئی ممالک میں انسان دوستی کی تحریک چلائی گئی۔
لکھنے والوں نے عوام کے مسائل پر قلم اُٹھایا، لوگوں کو متاثر کیا اور تفریح بھی فراہم کی، اَدب کا مطلب انسانی زندگی کو دلکش بنایا، دیکھایا اور بہتر بنانا انسان کی اچھائیاں اور برائیاں بیان کرنا، اصلاح کرنا، سبق دینا، معاشرے کی عکاسی کرنا، ثقافتی اور تہذیبی اثرات ظاہر کرنا، انسان کی شخصیت بنانا، نکھارنا، اُس کے تخیل اور سوچ کے ذریعے سے کرداروں کی کمزوریاں، خداترسی اور پارسائی دیکھنا، انجام کے ذریعے اخلاقی قدروں کو اُجاگر کرنا ہے اور حقیقت نگاری کو فروغ دینا۔ دُنیا میں امن صرف بھائی چارے اور انسان دوستی ہی سے قائم ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا ہمارا معاشرتی رویہ وہ مثبت ہونا چاہیے نہ کہ انسانیت برائے فروخت کا پیغام ہونا چاہیے۔