1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. مظفرآباد دریاؤں کی حالتِ زار!

مظفرآباد دریاؤں کی حالتِ زار!

کرہِ ارض کی 70 فیصد سطح پانی سے ڈھکی ہوئی ہے۔ جب کہ دُنیا کے تمام پانی کا 5.96 فیصد حصہ سمندری پانی پر مشتمل ہے۔ دریا کسی ملک کاا ثاثہ ہوتے ہیں۔ جہاں یہ قلتِ آب کو کم کرنے، موسمی اعتدال میں معاون ثابت ہیں وہاں ہی اگر تہذیب کی دنیا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ دُنیا کی تہذیبوں کا ارتقاء دریاؤں کے کنارے آبادیوں کے بسنے والوں سے ہوا۔ دریا سندھ، گنگا نے یہاں کی تہذیبوں کو جنم دیا۔ مصر دریا نیل کے تحفے کے نام سے مشہور ہے۔ عراق کے دریاوں کے کنارے سے بھی بہت سی تہذیبوں نے جنم لیا، چین کی تہذیب کو پروان چڑھنے میں بھی دریاوں کا بڑا کردار ہے۔ اورجب یونان کی آبادی میں اضافہ، وسائل میں کمی رونما ہوئی تو انہوں نے وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بحیرہ روم، بحیرہ بوسین، بحیرہ اسود کے کناروں اپنی نو آبادیات قائم کیں۔ اٹلی میں دریاِ ٹائبر، آسڑیلیا میں دریاِ ڈینوب، ربائن و فرانس میں دریاِ سین، جرمنی میں دریاِ ایلب کے کنارے تہذیبیں پھلتی پھولتی رہیں۔ قدرتی آب رسانی کایہ لامتناہی سلسلہ ازل سے جاری ہے اور جاری رہیگا جب تک کہ انسانی ہاتھ اسے تباہ و برباد نہیں کرتے۔ وہ وقت بھی تھا کہ خطِ کشمیر میں پانی کی بہتات، صاف اور میٹھے چشمے، دریاوں کا پانی رواں دواں تھا مگر انسانی بے ہنگم آبادی، آپ پاشی کے ناقص نظام، جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے زیر زمین پانی کے ذخائر میں کمی کی وہاں ہی ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ نے ہمیں ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑا کیا جہاں اب پانی دیکھنے میں کافی لیکن قابلِ استعمال ناکافی ہے۔ وطنِ عزیز واٹر کوالٹی ریکنگ کے حوالہ سے 122 میں میں سے 80 ویں نمبر پر ہے۔ وادی کشمیر کے دریاوں کی حالت زار بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دریائے نیلم کی تاریخ ریاست جموں وکشمیر جتنی پرانی ہے۔ دریاِ نیلم کشمیر میں دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے۔ بھارت میں اسے کشن گنگا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ دریا ہے جو آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں اٹھمقام، نیلم سمیت دیگر ملحقہ گاؤں اور پھر نیلم جہلم پراجیکٹ کو بھی پانی مہیا کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی جھیل وشنا سر سے شروع ہو کر آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں اختتام ہونے والا 245 کلو میٹر طویل دریائے نیلم کا مظفرآباد سے 41 کلومیٹر پہلے وادی نیلم کی طرف نوسہری کے مقام پر رخ موڑ دیا گیا جس کی بنیادی وجہ چھتر کلاس کے مقام پر پاور ہاوس بنانا مقصود تھا۔ اس پراجیکٹ سے 969 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے جس کی آمدن 55 ارب روپے بنتی ہے۔ مظفر آباد دریا کی نا گفتہ بہ حالت کا ایک طرف تو یہ مسئلہ تو دوسری طرف بھارت کی آبی دہشت گردی کا اہم کردارشامل ہے۔ کیونکہ 1960 میں دونوں ممالک کے مابین ہونے والے سندھ طاس معاہدہ ہوا۔ اس کے تحت بھارت کو صرف 50 فیصد پانی روکنے کا اختیار ہے لیکن اس نے پاکستان کو صحرا بنانے کی حکمت عملی کے تحت 70 فیصد پانی رو ک لیا۔ جس کے باعث صدیوں سے بہتا ہو ا یہ دریا جو کہ ایک قدیم ہمالیاتی تہذیب کا راز دان، وادی نیلم کے نیلگوں پانیوں کا حامل یہ خوب صورت مگر شوریدہ سر جو کشمیر کی تقسیم کے دکھوں کا گواہ ہے نالے میں تبدیل ہو چکا۔ جس کی وجہ سے مظفرآباد ضلع کی 06 لاکھ 50 ہزار آبادی نہ صرف آبی بلکہ ماحولیاتی تباہی کے دہانے آن پہنچی کیونکہ یہ دریا جہاں مظفر آباد اور گر د ونواح کے علاقوں کو آبی وسائل مہیا کرتا ہے وہاں ہی چاروں اطراف سے پہاڑی سلسلہ میں ڈھکے شہر کو شدید گرمی میں موسم اور ماحول کو صحت بخش اور معتدل رکھنے میں اس دریا کی سرد لہروں کا کلیدی کردار ہے۔ 70فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے۔ آزاد کشمیر کے درالحکومت مظفرآباد کی زیادہ تر عوام کا انحصار دریا کے پانی پر ہے۔ مظفرآباد سے بہنے والے دو بڑے دریا جہلم، دریائے نیلم جس کے پانی کا بہاؤ ہمیشہ 700سے 800 کیوسک فٹ تھا۔ اب وہ 150 سے 200 کیوسک فٹ سے بھی کم پر آ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے مظفرآباد سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں پانی جو پہلے ہی کمی کا شکار ہے اس دریا میں کمی کی بدولت عوام شدید مشکلات سے دوچار ہو چکے ہیں۔ بارشوں کے نہ ہونے کے باعث قدرتی چشمے بھی خشک ہوتے جارہے ہیں۔ اور اب دریائے نیلم، جہلم بھی نالوں کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ بھارت کی آبی دہشت گردی سے پاکستان اور آزاد کشمیر شدید آبی مسائل سے دوچار ہیں۔ 2005 میں بھارت نے لائن آف کنٹرول کے قریب ایک بجلی گھر بنانے کا اعلان کیا۔ جس کا نام کشن گنگا ہائیڈ رو الیکڑنک پراجیکٹ ہے۔ اس منصوبہ کی تعمیر پر بھارت نے تقریباً 6 ہزار کروڑ صرف کیے۔ یہ منصوبہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی گریز وادی سے، وادی کشمیر کے بانڈی پورہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے کشن گنگا کا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ بانڈی پور ہ تک تقریباً24کلو میٹر لمبی سرنگ بنائی گئی۔ وولر جھیل میں چھوڑ ا جاتا ہے جہاں سے واپس جہلم کے پانی کے ساتھ پاکستان چلا جاتا ہے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ کشن گنگا پراجیکٹ سے دونوں شرائط کی خلاف ورزی ہو رہی ہے : ایک تو نیلم میں پانی کم ہو جائے گا، دوسرے پاکستان خود نیلم جہلم ہائڈرو پراجیکٹ بنا رہا ہے۔ اس وجہ سے کشن گنگا کا راستہ تبدیل کیا جائے۔ اور پھر اس کی وجہ سے جتنا پانی پاکستان کو چاہیے اس سے کم ملے گا تو قلت آب کا خدشہ ہے۔ عالمی ماحولیات کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 4 ہزار کیوبک کلو میٹرصاف پانی کرہ ارض سے کم ہورہا ہے۔ 20 ویں صدی کے آخری عشروں میں فضائی آلودگی، گلوبل وارمنگ تغیرات، قلت آب جیسے مسائل سامنے آئے ہیں جن میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ گلوبل واٹر سروے کی رپورٹ کے مطابق چین آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اس کے پاس پانی کا صرف 7 فیصد ذخیرہ ہے۔ مشرقِ وسطی کی مجموعی آبادی کو صرف 01 فیصد پانی میسر ہے۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے۔ جس میں پانی کا بحران سنگین ہوتا جارہا ہے۔ بھارت نے اس بحران پر قابو پانے کے لیے پانی کے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی چوری اور روکتا چلا آرہا ہے۔ پاکستان میں 1960 کے بعد کسی بڑے ڈیم پر کام شروع نہیں کیا گیا جبکہ 2002 سے اب تک بھارت پاکستان آنے والے دریاوں پر 52 سے زائد ڈیمز تعمیر کر چکا۔ پاکستان میں دو ہی ڈیمز منگلا، اور تربیلا ہیں جن میں پانی کی سطح نچلی سطح تک آچکی ہے۔ آئی ایم ایف کی نئی رپورٹ کے مطابق قلت آب کے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر آچکا ہے۔ قلتِ آب کے پیشِ نظر اقوام نے آج سے پانچ ہزار سال قبل ہی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے مصنوعی جھیلیں، تالاب اور نہری نظام تعمیر کرنے کا طریقہ ایجاد کر لیا تھا۔ ہمیں آزادی ملے 70 سال ہو چکے لیکن آب قلت کی سایے منڈلانے کے باوجود ہماری توجہ پانی کو ذخیرہ کرنے، آب پاشی کے نئے طریقوں، پانی استعمال سے زائد ضیاع کرنے پر توجہ کیوں نہیں دے رہے؟اگر خراب ترین آبی صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو 2038 تک 40 فیصد عوام کو پانی دستیاب نہ ہو گا۔ ماہرین کے مطابق 2025ء تک 500 کیوبک میٹر پانی ہرشہری کو دستیاب ہوگاجو قحط زدہ افریقی ممالک کینیا، ایتھوپیا، صومالیہ سے بھی کم ہو گا۔ وطن عزیز میں ڈیمز، پانی ذخیرہ کرنے کے اقدامات کے ساتھ آزاد کشمیر کے دریاؤں کی حالتِ زار بھی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔

عابد ہاشمی

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔