1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. قدرتی آفات، سیلاب اور ہماری بے حسی

قدرتی آفات، سیلاب اور ہماری بے حسی

سیلاب نے تباہی مچا لی، ہم حکومت اور دوسرے اداروں پر تنقید کر کے اپنا حق ادا کر رہے، کچھ فلاحی تنظیمیں، ادارے، مخیر حضرات اپنی ساری توانائیاں لگا کر متاثرین کی مدد کر رہے۔ یہ حکومت یا کسی کے بس کی بات نہیں، یہ آزمائش کی گھڑی ہے۔ آزمائشیں اللہ کی طرف سے انسانوں کے اعمال کے نتیجہ میں ہوا کرتی ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کا احتساب کرنا ہو گا۔

"کیا یہ لوگ اس پر بھی غور نہیں کرتے کہ کوئی سال ایسا نہیں گزرتا کہ وہ ایک یا دو مرتبہ (تمہارے ہاتھوں (9، 14) کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہوتے ہوں۔ اس پر بھی یہ اپنی غلط رَوش سے باز نہیں آتے اور اتنا نہیں سمجھتے کہ منافقت ہمیشہ مصیبتوں کا موجب ہوا کرتی ہے۔ " کورونا ہو یا سیلاب کی آزمائش، غیر مسلم قیمتیں کم، ہم حسب معمول ذخیرہ اندوزی، خود ساختہ مہنگائی، مجبوری میں عزت نفس ویڈیو بنا کر مجروح، کمائی کا موسم بنائیں گے تو یہ مصیبتیں تو کم نہیں ہوں گی۔

پاکستان میں ریاستی تاریخ کے ان انتہائی غیر معمولی سیلابوں کے نتیجے میں غیر معمولی تباہ کاریاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ تباہ کن سیلاب اس سے قبل بھی آتے رہے ہیں، پیلا دریا (2297 قبل مسیح میں) اور نیل (3000 سال پہلے) لیکن گزشتہ صدی میں، ان کے تعدد اور نقصان کا سائز وہ آسمان پر پہنچا، آبادی میں اضافہ، جنگلات کی کٹائی اور انسانی سرگرمیوں کی نوعیت کے دیگر نقصان کے ساتھ، سیلاب زیادہ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

1۔ یورپ میں سیلاب، جرمنی، برطانیہ اور 1953 میں نیدرلینڈ کی کوریج، ایک مضبوط طوفان فورس ہواؤں بڑی لہروں کے شمالی ساحل سے احاطہ کرتا ہوا، یہ شیلڈ، میوس، رائن اور دیگر دریاؤں کے جوارندمھ میں پانی کی ایک تیزی سے اضافہ (3 سے 4 میٹر) کی وجہ سے ہالینڈ کے باقی کا سامنا کرنا پڑا زیادہ علاقے کا 8 فیصد بھر گیا تھا تقریباََ 2، 000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

2۔ گنگا ڈیلٹا میں سیلاب، یہ 1970 میں ہوا 10 میٹر کی لہر مقدس دریا چھا گیا اور واپس حوالے کر دیا یہ تقریباََ 20، 000 مربع میٹر بھر گیا تھا۔ دیہات کے تباہ سینکڑوں، اور قصبوں کے درجنوں ہلاک بارے میں 1 سے 5 ملین انسان سیلاب تقریباََ تمام کو پینے کے پانی کی شدید کمی، کو تباہ کرنے کے بعد سے سینکڑوں، ہزاروں لوگوں کی بھوک اور ٹائیفائیڈ اور ہیضے کی وبا سے مر گئے تھے۔

3۔ آمور سیلاب، اس نے جولائی 2013 میں روسی فیڈریشن کی سرزمین پر ہوا کل نقصان 3 ارب rubles سے تجاوز کر گئی۔ یہ 29 پلوں کو تباہ کر گیا، سڑکوں کی تقریباََ 300 کلومیٹر کے فاصلے پر دھندلا پن بری طرح زراعت کو نقصان پہنچا، سیلاب زدہ علاقے میں دس سے زیادہ بستیاں تھی۔

پاکستان میں ماضی میں 1956، 1976، 1986 اور 1992 میں بڑے سیلاب آئے تھے۔ ان سیلابوں کے دوران بھی دریائے سندھ میں پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح کالا باغ کے مقام پر آٹھ لاکھ 62 ہزار اور چشمہ کے مقام پر سات لاکھ 86، 600 کیوسک سے نہیں بڑھ پائی تھی۔ اس سال کالا باغ کے مقام پر پانی کا بہاؤ نو لاکھ کیوسک اور چشمہ پر دس لاکھ کیوسک سے تجاوز کر گیا۔

2010 کے سیلاب میں ملک کے 78 جبکہ 2022 میں 116 اضلاع متاثر ہوئے ہیں لیکن 2010 میں دو کروڑ کی آبادی جبکہ 2022 میں اب تک 31 لاکھ سے زائد کی آبادی متاثر ہوئی ہے، جس میں 2 لاکھ 26 ہزار صرف سندھ میں متاثر ہوئے ہیں۔ مسلسل ہونے والی بارشوں سے لاکھوں مکانات متاثر ہوئے جس وجہ سے لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔

2010 میں بھی محکمہ موسمیات اور این ڈی ایم کا کہنا تھا کہ معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کے باعث سیلابی صورت حال بنی لیکن بعد ازاں بتایا گیا کہ کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح اچانک بلند ہوئی اور پانی تمام تر حفاظتی بند اور پشتوں سے بلند ہو کر دیہاتوں اور شہروں میں داخل ہو گیا۔ اس سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ بڑے پیمانے پر مالی نقصانات بھی ہوئے جس کا تخمینہ 10 ارب ڈالر سے بھی زائد لگایا گیا۔

محکمہ موسمیات کے مطابق 2010 کا سیلاب دریائی سیلاب تھا جبکہ رواں مون سون میں آنے والے سیلاب کو فلیش فلڈ، کہا جاتا ہے۔ بارشیں اتنی زیادہ ہوئی ہیں کہ بعض علاقوں میں سیلابی ریلے اس شدت سے آئے کہ مکانات، مویشیوں اور انسانوں کو بہا کر لے گئے ہیں۔ 14 جون 2022 سے لے کر اب تک ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 900 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں 386 مرد، 191 عورتیں اور 326 بچے شامل ہیں۔

اس دوران زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 1293 ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں سندھ میں 115، بلوچستان میں 110، خیبر پختونخوا میں 84 اور پنجاب میں 50 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ چار لاکھ 95 ہزار سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں جن میں سے دو لاکھ کے قریب مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ تین ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکوں، 130 پلوں اور 700 دکانوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ سات لاکھ سے زائد جانور ہلاک ہو گئے ہیں۔

ملک کے 116 اضلاع، 31 لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی جن میں سے ایک لاکھ 84 ہزار خیموں میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ 2010 کے سیلاب میں پاکستان کے 78 اضلاع کی دو کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی۔ 1945 افراد ہلاک، تین ہزار کے قریب زخمی ہوئے جبکہ 18 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا تھا۔

سیلاب، وجوہات اور اقسام: وجوہات: 1 برف پگھلنے، 2۔ سونامی لہروں، 3۔ طویل بارشوں، 4۔ Anthropogenic اسباب۔

سیلاب سے بچاؤ، بچاؤ کا بنیادی مقصد۔ ایک تلاش اور ریسکیو لوگوں سیلاب زدہ علاقے میں پھنسے۔ یہ جتنی جلدی ممکن ہو اور ان کی مدد کرنے کے لئے موجودہ صورت حال میں ان کی بقا کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔ امدادی کام کی کامیابی کے اعمال کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے حاصل کیا جاتا ہے۔

1۔ سیلاب، کے ساتھ ساتھ سرچ اینڈ ریسکیو اہلکاروں کے ارکان ریسکیو آپریشن کرنے کی بالکل وہی جو جانتے ہیں کہ شہری دفاع کے کمانڈر اور فوجی، کے ابتدائی اور منظم طریقے سے تربیت لے۔

2۔ آفت کو ریپڈ رسپانس کے alerting اور ضروری افرادی قوت اور وسائل فراہم کر ابھرا۔

3۔ آپریشنل انٹیلی جنس کنٹرول سسٹمز کی تعیناتی کی تنظیم۔

4۔ ایک مؤثر ہٹ کی تلاش ٹیکنالوجیز اور ان کی نجات، کے ساتھ ساتھ طریقوں کے استعمال کی آبادی اور معاشی اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے امدادی کارکن طیارے استعمال کرنا چاہئے۔ جب ہم سو روپے کی چیز ہزار میں دیں گے تو یہ آزمائشیں کبھی نہیں ٹلنے والی۔

عابد ہاشمی

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔