1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. 16 دسمبر

16 دسمبر

آج 16 دسمبر ہے، سات سال قبل آج ہی کے دن پاکستان کے شہر پشاور میں آرمی پبلک سکول پہ وحشی درندوں نے حملہ کرکے 144 پھول بے دردی سے مسل دئیے تھے، یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو آج تک ہر پاکستانی کے دل میں تازہ زخم کی طرح رستا رہتا ہے، قتل ہونے والے بچوں کی تصاویر دیکھ کے بے اختیار آنسو بہنے لگتے ہیں، اللہ جانے وہ والدین کیسے زندہ ہوں گے، ان کی سانسیں کیسے آتی ہوں گی، انکو نیند کیسے آتی ہوگی، مائیں کھانا بھی کھاتی ہوں گی کہ نہیں، اپنی مقتول اولاد کے چہرے کو دیکھنے کے لئے کتنا تڑپتی ہوں گی، بچوں کے خون آلود کپڑے، بیگ اور کتابیں انہیں اس کپڑے کی مانند لیرو لیر کردیتے ہوں گے جس کپڑے کو کانٹوں پہ پھینک کر واپس کھینچ لیا گیا ہو، اللہ جانے وہ مائیں بچوں کی قبروں پہ جاپاتی ہوں گی کہ نہیں یا جاکر واپس گھر کیسے آتی ہوں گی؟ اللہ ہی جانے۔۔

آج صبح اٹھتے ہی دیکھا کہ ہر طرف سانحہ پشاور کی خبریں چل رہی ہیں، فیس بک، وٹس اپ سٹیٹس پر مقتول بچوں کی تصاویر لگائی جارہی ہیں، بچوں کو یاد کرکے آنسو بہائے جا رہے ہیں، غرضیکہ اس سانحہ کی تکلیف سے ہم کبھی باہر نہیں آسکتے، کبھی بھی نہیں۔

چند ماہ پہلے ایک اسلامی مہینہ گزرا ہے، جسے محرم الحرام کہتے ہیں، اس مہینہ میں ہمارے نبی پاکؐ کی اولاد کی یاد منائی جاتی ہے، 61 ہجری کربلا کی زمین پر، آلِ رسولؑ کو اسلامی دہشت گرد کے غنڈوں نے گھیر لیا تھا، اور ظلم کی وہ داستان رقم کی جو آج تک مسلمانوں کے ماتھے پہ کلنک بن چکی ہے، اس ظلمِ عظیم کے بعد مسلمانوں نے نمازِ عصر ادا کی، اسلام کے لبادے میں چھپے ان دہشت گردوں نے گلشنِ محمدؐ کے ہر پھول کو بے دردی سے توڑا اور ان پھولوں میں جس پھول کو تین دفعہ توڑا گیا اس کی عمر چھ ماہ تھی، آیتِ تطہیر کی تفسیروں کے سروں سے غلاف چھین کر، بن پلان اونٹوں پہ ہاتھ پس گردن باندھ کر شہر شہر پھراتے رہے۔

ہم تب سے آج تک اس ظلم کے خلاف ہر سال بلکہ سارا سال سراپاء احتجاج رہتے ہیں، ہمارا مذاق بنایا جاتا ہے، لطیفے بنائے جاتے ہیں، گالیاں دی جاتی ہیں، طنز کسے جاتے ہیں، حتیٰ کے ایف آئی آر کٹوائی جاتی ہیں، جیسے آج سب سانحہ پشاور پہ احتجاج کر رہے ہیں، سب غمگین ہیں ویسے ہی ہم اکسٹھ ہجری میں ہونے والے سانحہ پہ ماتمی بن کر احتجاج کرتے ہیں، یہ احتجاج ہی کی طاقت ہے جس نے کربلاء کے ذمہ دار یزید، شمر، عمر سعد، ابن زیاد، خولی، حُرملہ کو چھپنے نہیں دیا، ورنہ آج یہ لوگ نصاب کی کتب میں ہمارے اسلامی سپاہ سالار ہوتے۔ شام کے بازار میں چھ ماہ کے علی اصغر کا سر نیزہ پہ سوار دیکھ کر شامی عورت نے سوال کیا، کیا اس صغیر مقتول کی ماں اب بھی زندہ ہے؟ سانحہ پشاور میں مقتول بچوں کو دیکھ کر ہمارے اندر یہ سوال اٹھتا رہتا ہے، کیا ان کی مائیں اب بھی زندہ ہیں؟

آج آپ غمزدہ ہو، آنسو بہا رہے ہو، ماتم کر رہے ہو لیکن آپ کے بچوں کے قاتل آزاد ہیں، اگر کل آپ کربلا کے قاتلین کے لئے احتجاج کرتے تو آج سانحہ پشاور کے خولی اور حرملہ آزاد نا ہوتے، کربلاء سے حریت پسندی سیکھئیے، کربلاء سے ظلم کے خلاف قیام سیکھئیے، کربلا جائیے، کربلا کو اپنے اندر بسائیے۔