1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. مقتولینِ بے خطاء

مقتولینِ بے خطاء

ایک دفعہ فیملی کے ساتھ جدہ سے دمام جا رہا تھا، دمام سے دو سوکلو میٹر قبل میری گاڑی کا پیچھے والا ٹائر پھٹ گیا، رات کے دو بج رہے تھے اور میرے پاس دوسرا ٹائر بھی نہیں تھا، دمام میں گرمیوں کے موسم میں دن رات ایک جیسی ہی گرمی اور حبس ہوتا ہے، بالکل ویران سڑک تھی اور دور دور تک کسی آبادی کا نام و نشان نا تھا، کچھ فاصلہ تو پھٹے ہوئے ٹائر کے ساتھ طے کیا مگر ٹائر کے رِم سے جب سارا ٹائر اتر گیا تو گاڑی مزید چلنا مشکل ہوگئی، گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر دی اور یہی فیصلہ کیا کہ یوں ہی گاڑی میں بیٹھے رہتے ہیں صبح ہوکر کسی سے مدد طلب کریں گے۔ کچھ دیر بعد گاڑی کے پیچے سے بہت تیز روشنی پڑی ساتھ ہی سپیکر میں آواز آئی کہ گاڑی سے باہر نکلو، جب گاڑی سے باہر نکلا تو دیکھا کہ چند پٹرولنگ پولیس والے گاڑی میں بیٹھے تھے انہوں نے مجھ سے مسئلہ پوچھا تو میں نے کہاکہ میری فیملی ساتھ ہے گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا ہے اور میرےپاس ایکسٹرا ٹائر بھی نہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے مجھے ٹھنڈا پانی دیا اور بولا کہ فیملی کو بھی پانی پلاو اور حوصلہ رکھوہم مدد کرتے ہیں، بس پھر کیا تھا میں اور میرے گھر والے انکی گاڑی میں اے سی چلا کر بیٹھ گئے اور پولیس والوں نے کسی کو کال کی ایک اور گاڑی پہ نیا ٹائرآگیا اور سب نے ملکر مجھے ٹائر تبدیل کر دیا، میں نے پیسے دینے چاہے ٹائر کے تو ان میں سے ایک نے کہا کہ ہماری طرف سے فیملی کو پیزا کھلا دینا۔

یہ سارا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں پولیس کو دیکھ کر لوگ خود کو محفوظ تصور کرنے لگتے ہیں واحد ہمارا ملک ہے جس میں پولیس کو دیکھ کر جیب، عزت اور جان کا خطرہ پڑ جاتا ہے، لوگ دشمن سے زیادتی برداشت کر لیتے ہیں لیکن پولیس والوں کے پاس نہیں جاتے کیونکہ انکو یقین ہوتا ہے معاملہ حل ہونے کی بجائے انکے گلے پڑ جانا ہے۔ رات کے کسی پہر بھی ہم گھر سے باہر نکلیں اور دور سے پولیس کی گاڑی آتے دیکھ لیں تو دل ڈر جاتا ہے کہ پتہ نہیں کس الزام میں دھر لئے جائیں۔

مجھےکل سے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ فرض کیا اگر ان بچیوں کے والد اور ڈرائیور پہ دہشت گرد ہونے کا شک تھا تو انکو گولیاں مارنے کی کیا ضرورت تھی، ان کو گرفتار کرتے پوچھ گچھ کرتے اگر وہ کلئیر ہوتے تو انکو چھوڑ دیتے، کیا کوئی دہشت گرد اپنے معصوم بچوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے؟ ایک ایک آدمی کو دس سے زیادہ فائر مارے گئے جبکہ عینی شاہدین کے مطابق اس کار سے کسی قسم کی مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔

یہ کیسا ملک ہے؟ یہ کیسا قانون ہے؟ یہ کیسی تبدیلی ہے؟ ہم نے عمران خان صاحب کو اس امید سے ووٹ دئیے تھے کہ ہم غریبوں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوگا، لیکن اب تو سانس لینے کا حق بھی چھینا جانے لگا ہے۔ ابھی توماڈل ٹاؤن والا واقعہ نہیں بھول پائے تھے کہ قوم کو نئے سال کے شروع میں ہی نیا زخم دے دیا گیا۔ اگر مظلومین کو انصاف نہیں ملے گاتو بہت جلد خدا کی بے آواز لاٹھی اپنا کام دکھانا شروع کر دے گی اور ہر اس پہ برسے گی جو جو اس ظلم میں شریک ہوا۔

ساہیوال میں ہونے والا ہولناک واقعہ سننے کے بعد کل رات سے میں شدید تکلیف میں مبتلا ہوں، ساری رات میں سو نا سکا بار بار ان دو بچیوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے آجاتے تھے انکی خوفزدہ صورت نے ہر درد مند انسان کے دل کو چیر ڈالا ہے، عجیب نظام ہے ہمارے ملک کا جس پہ دہشت گردی کا شک ہو اسے گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور جو اپنی دہشت گردی تسلیم کر لے اسے قوم کا بیٹا بنا دیا جاتا ہے۔

جب بیٹیوں کے سامنے ان کے باپ کو قتل کیا جاتا ہے تووہ زندگی بھر ہنس نہیں پاتیں اور مرتے دم تک باپ کی خون آلودہ لاش انکی آنکھوں میں رہتی ہے چاہے وہ بیٹیاں کوفہ میں ہوں، کربلا میں یا پھر ساہیوال میں۔