1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. دکھاوے کی عبادتیں

دکھاوے کی عبادتیں

ایک مسجد کی تعمیر کا اشتہار دیکھا جس پہ مسجد کی امداد کی اپیل کی گئی تھی، ساتھ میں مسجد کی تعمیر پہ آنے والی لاگت کا تخمینہ بھی تقریباَ سوا کروڑ لکھا ہوا تھا، ایک چھوٹے سے شہر میں اتنی مہنگی مسجد کی تعمیر کا اشتہار دیکھ کر یقیناَ کئی لوگوں کے لئے بڑی خوشی کی بات ہوگی اور سوا کروڑ کے ہندسے پڑھ کر زبان پہ سبحان اللہ بھی جاری ہوجاتا ہوگا لیکن مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی کیونکہ میرا نظریہ یہ ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں مساجد و مدرسوں سے زیادہ ان لوگوں پہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے جو دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں، ہر شہر ہر محلہ میں کئی ایسے افراد دیکھنے کو ملیں گے جو قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہوں گے یا پھر بیمار ہوں گے، بے روزگار ہوں گے یا پہننے کو کپڑے تک نہیں ہوں گے سر پہ چھت نہیں ہوگی اور سڑک کنارے سونے پہ مجبور ہوں گے۔ اگر آپ سوا کروڑ میں سے مسجد پہ تیس لاکھ لگا دیں اور باقی کی رقم سے چھوٹے چھوٹے گھر بنا کر ان افراد کو دے دئیے جائیں جو کسی میدان میں جھونپڑی لگا کر زندگی گزارنے پہ مجبور ہوں، اتنی بڑی رقم سے آپ بے روزگار افراد کوروز گار بنا کر دیں، بیمار افراد کے لئے دوائیوں کا کوئی ذریعہ بن سکتا ہے۔
کروڑوں روپے کی لاگت سے مسجد پہ تزین و آرائش کرو لی اور اس میں قیمتی قالین بچھا کر، اے کنڈیشنر اور گیزر لگوا کر، بڑے بڑے سپیکر لگا کر آپ اپنی واہ واہ تو کروا لیں گے لیکن جس خدا کا گھر تعمیر کیا شائد وہ راضی نا ہو۔ اکثر یہ حدیث بھی سننے کو ملتی ہے کہ جس نے دنیا میں خدا کا گھر تعمیر کروایا اس نے جنت میں اپنا گھر بنا لیا اس حدیث پہ اتنا عمل ہوا کہ اب نمازیوں سے زیادہ مساجد تعمیر ہوگئیں۔ لیکن رسول اللہﷺ کے اس اسوہ حسنہ پہ عمل کوئی نہیں کرتا جس میں انہوں نے حقوق العباد پہ عمل کرنے کا زور دیا۔ مساجد کی جگہ اگرانسانوں پہ خرچ کیا جائے تو مساجد کا مالک بہت راضی ہوگا۔
سات شعبان المعظم کو شہزادہ قاسمؑ بن حسنؑ کی ولادت کی خوشی میں ایک محفل کروانے کا فیصلہ کیا ہے، اپنی مالی حیثیت کو دیکھتے ہوئے چند خوش الہان اور خوبصورت قصائد پڑھنے والے ذاکرین سے رابطے کئیے ہر ذاکر صاحب نے محفل کی تاریخ پوچھنے کے فوراَ بعد باتوں باتوں میں اپنی فیس بھی سنا ڈالی، اور تقریباَ سب کا ایک جملہ مشترکہ تھا کہ اس دن ہمیں کافی جگہوں پہ مدعو کیا گیا ہے اس لئے آُپ کی طرف پہنچنا مشکل ہے لیکن اگر آپ نیاز تھوڑی بڑھا دیں تو ہم کوئی ایک جشن چھوڑ کر آپ کی طرف بروقت پہنچ سکتے ہیں۔ ہم نے جہاں دو چار ذاکرین کو دعوت دینے کا سوچ رکھا تھا وہاں ایک پہ ہی اکتفا کرتے ہوئے ایک ایسے ذاکر صاحب سے بات فائنل کر دی جنہوں نے نا فیس کی بات کی اور نا ہی کوئی الگ سے ڈیمانڈ۔
یوٹیوب پہ کزن نے اہل سنت کے ایک مشہور نعت خواں کی منقبت سنائی سن کر بہت ہی دل کو بھائی، اہل سنت میں ایسی عقیدت اور محبتِ اہل بیتؑ دیکھ کر فیصلہ یہ کیا کہ ان نعت خواں صاحب کو اپنی محفل پہ دعوت دیتے ہیں اس کے دو فائدے ہوں گے ایک تو اتحاد بین المسلمین کی فضا قائم ہو گی اور دوسرا ان سے آلِ رسولﷺ کی شان میں مدح سرائی بھی سننے کو مل جائے گی۔ بڑی مشکل سے نعت خواں صاحب کا نمبر ملا دو دن کال کرتے رہے انہوں نے کال موصول نا کی پھر تیسرے دن انکو میسج کیا تو انکے سیکرٹری نے بڑے غصیلے انداز میں کال وصول کی اور ہماری بات سنتے ہی کہا کہ ہمارے پاس شوال تک ایک دن بھی وقت نہیں اور ہماری فیس بھی صرف پینتالیس ہزار ہے۔ ابھی وہ اپنی مارکیٹنگ کر رہے تھے ہم نے کال بند کر دی۔ پھر ایک اور اہل سنت نعت خواں جو یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا پہ میاں محمد بخش کا کلام پڑھنے میں خاصے مشہور ہیں۔ ان صاحب نے ہماری کال وصول کرنے کی شائد قسم کھا لی تھی انکو بھی میسج کیا تو دوسرے دن جا کر فون اٹھایا اور کہا کہ جناب ہمیں انگریزی تاریخ بتائیں ہمیں ایسی اسلامی تاریخ سات شعبان کا نہیں معلوم کہ کب آئے گی، یقین جانئیے ان کا رویہ اتنا روکھا تھا کہ دل کیا انکا فون بھی بند کر دوں لیکن جذبات پہ قابو پاتے ہوئے بات کو جاری رکھا اور کہا کہ ہولڈ کریں میں انگریزی تاریخ دیکھ کر بتاتا ہوں لیکن انہوں نے کہا اتنا وقت نہیں میرے پاس تاریخ دیکھ کر دوبارہ کال کر لینا اس کے بعد انکا اعلیٰ اخلاق دیکھتے ہوئے دوبارہ کال کرنے کی جرآت نا کر سکے۔
یہ دوباتیں لکھنے کا مقصد یہ تھا دین ہم لوگوں کے حلق سے آج تک نیچے دل میں اترا ہی نہیں ہم اپنی عبادات صرف دکھاوے کی کرتے ہیں ہم کروڑوں روپے خرچ کر کے مسجد بھی بنواتے ہیں تو اس کے پیچھے مقصد خشنودیِ خدا نہیں بلکہ مسجد کے باہر لگے بورڈ پہ اپنا نام اور واہ واہ ہوتا ہے۔
ہم بڑی بڑی محافل نعت کروائیں یا مجلس حسینؑ لاکھوں روپے بھر کر ان لوگوں کو مدعو کرتے ہیں جنکا مقصد ذکرِمصطفیٰﷺ یا آلِ مصطفیٰﷺ نہیں بلکہ پیسے کمانا ہے کیونکہ یہ انکا کاروبار ہے۔ آپ کو سوشل میڈیا پہ اور ٹی وی پہ جتنے بھی جھوم جھوم کر ذکر کرتے لوگ نظر آئیں گے آپ پہ انکی اصلیت تب آشکار ہوگی جب آپ ان کے قریب ہوں گے۔ دور سے یہ لوگ آپکو دنیا میں سے بڑے عاشق رسولﷺ اور محبِ اہل بیتؑ نظر آئیں گے لیکن در حقیقت یہ ریا کار اور کاروباری لوگ ہیں۔
ان سے بڑے ریا کار ہم خود ہیں جو صرف اس لیے ان کو بلاتے ہیں تاکہ معاشرے میں ہمارا نام بنے اور لوگ کہیں کہ اس نے کتنی بڑی محفل کروائی ہے اور لوگوں میں مشہور ہوں جاوں۔
جبکہ اگر ہم ریا کاری والی محافل منعقد کروانے کی بجائے اگر خدا کے بندوں پہ خرچ کریں تو اللہ بھی راضی اسکا رسولﷺ بھی اور رسولﷺ کی بیٹیؑ بھی۔