1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی اصغر/
  4. ہوا کے جھونکے

ہوا کے جھونکے

دیہاتی علاقہ جات میں جیسے ہی گرمی کی شدت بڑھتی ہے تو گھر کے تمام افراد رات کو صحن میں چارپائیاں ڈال کر ایک ہی قطار میں سوتے ہیں، قطار کے شروع میں فرشی پنکھا(پیڈسٹل فین) لگا دیا جاتا ہے تاکہ پہلی سے لے کر آخری چارپائی تک ہوا جائے۔

پنکھے کے سامنے پہلی چارپائی ہمیشہ سب سے چھوٹے اور پیارے بچے کی ہوتی ہے تاکہ اسے زیادہ ہوا لگے اور وہ سکون سے سو سکے، وہ بچہ بڑا ہوجاتا ہے اس کی جگہ دوسرا بچہ لے لیتا ہے، پہلے والے بچے کی چارپائی پنکھے کے سامنے سے ہٹا کر دوسرے بچے کا بستر بچھا دیا جاتا ہے، بچہ جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے پنکھے سے اس کا فاصلہ بڑھتا جاتا ہے۔

پھر ایک وقت آتا ہے وہ بچہ خود باپ بن چکا ہوتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بچے پنکھے کے سامنے سوئیں اور اس کی چارپائی بے شک سب سے آخر میں کیوں نہ ہو۔

آپ کو شاید یہ مثال نہایت سادہ لگے لیکن اس کے پیچھے ایک راز بھی ہے وہ یہ کہ زندگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی، کبھی بخت و عروج کے ٹھنڈے جھونکے تو کبھی زوال کی تیز تپش انسان کو جھلسا دیتی ہے، ہمارے اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ ہمارے اپنے اور پرائیوں کے روئیے بھی بدلتے رہتے ہیں، اچھے وقت میں ہر وقت ساتھ رہنے والے دوست برے وقت میں چھوڑ جاتے ہیں۔

بلکہ کچھ تو ایسے دوست بھی ہوتے ہیں جو ہمارے مشکل وقت کو مزید مشکل بناتے ہیں دراصل وہ دوست کی روپ میں دشمن ہوتے ہیں ان کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ ہم مشکلات کی اس دھوپ میں اتنے جھلسیں کہ ہماری پہچان تک ختم ہوجائے۔ ایک پل جدا نہ ہونے والے مہینوں آپ کی خیر خبر بھی نہیں لیتے، یہ سب وقت کا کھیل ہے کبھی ہم پنکھے کی ٹھنڈی ہوائیں لیتے ہیں تو کبھی گرمی میں سڑتے ہیں۔

مگر، اس کائنات میں ایک ذات ایسی ہے جسے آپ کے اچھے برے وقت سے کوئی سروکار نہیں، اسے آپ کے مال دولت سے محبت نہیں اسے آپ ہر حال میں پیارے ہو، وہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ بس اس کے ساتھ منسلک رہے، بعض اوقات ہم سے ہماری قیمتی چیزیں اس لئے چھین لی جاتی ہیں کیونکہ ہمارا رب چاہتا ہے کہ آخر میں وہ اور بس اس کا بندہ رہ جائے۔

رب کی رحمت وہ پنکھا ہے جو پہلی چارپائی والے کو زیادہ اور آخری چارپائی والے کو کم ٹھنڈی ہوا نہیں دیتا بلکہ یہ تو وہ رحمانی ہوا ہے جس کی ٹھنڈی پھوار ہر نیک وبد کے لئے ایک جیسی ہے۔

وہ ہماری حیثیت نہیں نیت دیکھتا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں بس وہ راضی رہے۔ ہماری عزتوں کا وہی مالک ذلت بھی اسی کی جانب سے ہے۔