1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (17)

متولیِ کعبہ (17)

سیدنا عبدالمطلب نے اپنے باپ ہاشم کے بعد بیت اللہ کی ذمہ داری پورے خلوص اور محبت سے نبھائی، آپ نے نا صرف مکہ شہر میں رہنے والوں کی ہر موقع پر مدد کی بلکہ پورے عرب کو جینے کا سلیقہ سکھایا، آپ نے اپنی نیک دلی کی وجہ سے صرف قریش کے دِلوں میں ہی اپنی جگہ نہیں بنائی بلکہ یہود و نصاریٰ بھی آپ کا بے حد احترام کرتے تھے کیوں کہ آپ نے کبھی کسی کے ساتھ نہ بے انصافی کی نہ کسی کے ساتھ ہونے دی، یتماٰ و مساکین، بیوہ اور مسافروں کی ہر ممکن مدد کی حتیٰ کہ پہاڑوں اور میدانوں میں بسنی والے چرند پرند بھی آپ کی بھیجی ہوئی غذا کھاتے تھے۔ معاشرے میں نئی اصلاحات رائج کیں جو عرب جیسے وحشی ماحول میں کسی انقلاب سے کم نہ تھیں۔

رسول اللہ ص کی عمر آٹھ سال ہوئی تو یہی سال آپؐ کے دادا عبدالمطلب کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا، آپ نہایت کمزور اور ضعیف ہوچکے تھے، یمن کے بادشاہ سے ملاقات کرکے واپس آنے کے دوسرے سال ہی آپ شدید بیمار ہوگئے اور چلنا پھرنا ترک کردیا، حواسِ خمسہ بھی ساتھ چھوڑ گئے، زیادہ وقت بستر پہ ہی گزرنے لگا، جب آپ کو یقین ہوگیا کہ آپ کی موت قریب ہے تو آپ نے اپنے تمام بیٹوں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں کئی وصیتیں کیں، آپ نے بیٹوں کو ہمیشہ نیکی کرنے، غرباء و مساکین اور بیوگان کا خاص خیال رکھنے کی وصیت کی، رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور مسافروں کو کھانا کھلانے اور انہیں پناہ دینے کی تاکید کی، آپ نے کہا مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے پوتے محمدؐ کی ہے میرے بعد اسے کون پالے گا؟ تو سب نے حامی بھری مگر رسول اللہ ص نے سیدنا ابوطالبؑ کے ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تب عبدالمطلب نے کہا شکر ہے خدایا میری اور محمدؑ کی ایک ہی پسند ابوطالبؑ ہے، پھر آپ نے سیدنا ابوطالبؑ کو تنہائی میں بلا کر رسول اللہ ص کی ذات کے متعلق کافی راز بتلائے اور انہیں ان باتوں کو راز ہی رکھنے کو کہا، آپ نے فرمایا کاش میری آنکھیں وہ دیکھ پاتیں جن کی مجھے خبریں ملی ہیں۔

بیٹوں کو وصیتیں کرنے کے بعد آپ نے اپنی چھ بیٹیوں کو پاس بلایا، آپ کی تمام بیٹیاں شعر کہنے میں مشہور تھیں، آپ نے اپنی بیٹیوں سے کہا بیٹیاں باپ کے جنازے کی رونق ہوا کرتی ہیں، باپ کی میت پہ نوحے و ماتم بیٹیاں ہی کیا کرتی ہیں، میری خواہش ہے میری میت پہ تم نے مرثیے پڑھنے ہیں وہ میری زندگی میں مجھے سناو میں دیکھنا چاہتا ہوں میری بیٹیاں میرے ساتھ کتنی محبت کرتی ہیں، پھر آپ کی تمام بیٹیاں باری باری مرثیہ بھی پڑھ رہی تھیں اور رو بھی رہی تھیں، آپ پہلے تو داد دیتے رہے آہستہ آہستہ آپ کی آوازبند ہوتی گئی پھر آپ آنکھوں کے اشارے سے بات کرتے رہے، آخری بیٹی کا مرثیہ سننے کے بعد آپ خاموش ہوگئے اور آپ نے جان، جاں آفریں کے سپرد کردی، آپ کی موت کی خبر پورے مکہ میں آگ کی طرح پھیلی، قریش کا ہر فرد مغموم تھا، اس دن اہلیانِ مکہ نے آپ کی میت پہ خوب بین کئیے، ضرور پہاڑوں پہ رہنے والے پرندے بھی روئے ہوں گے۔

کفن دفن کی تیاری کی گئی، آپ کی وفات سے نبی کریمؐ بہت زیادہ غمزدہ ہوئے، جدِ امجد کی وفات پر آپ بہت غمگین اور اداس تھے، کبھی آپ اپنی پالنے والی آیا حضرت اُمِ ایمن کو دیکھتے اور کبھی اپنے چچا ابوطالب کو دیکھتے، آپؐ اپنے دادا کے سرہانے کھڑے رو رہے تھے، جب آپ کا جنازہ اٹھایا گیا تو آپ جنازے کے پیچھے چلتے جا رہے تھے اور رو رہے تھے۔

آپ کو مکہ کے مشہور قبرستان حجون میں دفن کیا گیا، سیدناعبدالمطلب نے 83 سالہ مثالی زندگی گزاری اور آپ ہمارے پیارے آقا و مولا محمدؐ کے لئے خدا کی طرف سے عطاء کردہ گود ثابت ہوئے اسلام اور مسلمان رہتی دنیا تک آپ کے احسان مند رہیں گے۔

کروڑوں درود و سلام ہوں سیدناعبدالمطلب پر اور لاکھوں رحمتوں کا نزول ہو آپ کی قبرمطہر پر۔

(سیدنا عبدالمطلب کی حیات مبارکہ پر بہت کم لکھا گیا ہے، بندہِ حقیر نے مختلف تاریخی کتب سے مواد جمع کرکے متولیِ کعبہ کے عنوان سے قسط وار سلسلہ شروع کیا تھا، آسان الفاظ میں ایک داستان کی شکل میں اس لئے لکھا تاکہ قارئین کرام پڑھتے وقت دلچسپی نہ کھو دیں اور سیدنا عبدالمطلب کی حیات مبارکہ کے متعلق بھی جان سکیں۔

خدا مجھ حقیر کی یہ خدمت اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور سیدنا عبدالمطلب روزِ محشر مجھے اپنے غلاموں میں شمار کریں آمین)