1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. استاد المعلمین

استاد المعلمین

میں نے پہلی بار جب طاہر القادری صاحب کی زبانی سنا کہ اہل سنت کے امام جناب ابوحنیفہ امام جعفر صادقؑ کے شاگرد تھے تو کافی دیر حیران رہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک فقہ کا بانی مخالف فقہ کے رہنماء کا شاگرد ہو؟ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ شیعوں کےچھٹے امام جعفر صادق کے شاگرد بانی فقہ حنفیہ امام ابو حنیفہ ہی نہیں بلکہ جن بڑے بڑے سائینسدانوں کے متعلق ہم کیمسٹری میں پڑھتے رہے وہ عظیم سائینسدان بھی امام جعفرصادقؑ کے شاگرد تھے۔

امام علیؑ سے لیکر امام زین العابدینؑ تک کا دور آل محمدؑ پہ خاصہ مشکل گزرا ہے، آئمہ معصومینؑ کے ان ادوار میں اصل دینِ محمدیؐ کی ترویج آزادانہ طور پہ ناہوسکی، لیکن ان حضرات کے بعد امام محمد باقرؑ جن کو باقر العلوم بھی کہتے ہیں کے دور میں اور ان کے بعد انکے بیٹے امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں مذہب اہل بیتؑ کی خوب ترویج و تبلیغ ہوسکی، ان بزرگ ہستیوں کی رہنمائی، ہدایت اور جد وجہد نے پورے عالم اسلام کو دین اسلام کے نور سے مزید منور کردیا، عالم اسلام کے سب سے بڑے دینی درس گاہ کی بنیاد رکھی گئی جس میں ہزاروں مسلم دانشوروں نے تربیت حاصل کی۔

ہر طرف اس عظیم دینی درس گاہ اور امام کے علمی خزانے کے ہی چرچے تھے جس کی وجہ سے مکہ، مدینہ کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی عاشقان علم و دین امام کی خدمت میں حاضر ہوئے، یہاں تک کہ بعض غیرمسلم دانشور بھی امام کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی علمی پیاس بجھانے لگے۔ امام جعفرصادقؑ نےاس وقت کی مناسب سیاسی اور معاشرتی ضرورت کے پیش نظر اپنے والد ماجد کی علمی، ثقافتی اور تربیتی تحریک کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا اور ایک بہت بڑا حوزہ علمیہ اورایک عظیم یونیورسٹی مدینہ منورہ میں قائم کی اور مختلف شعبوں میں شاگردوں کی تربیت کی۔

آپ کے شاگردوں میں ہشام بن حکم، مفضل بن عمر کوفی، محمد بن مسلم ثقفی، ابان بن تغلب اور جابر بن حیان وغیرہ سرفہرست ہیں۔ محدثین کا کہنا ہے کہ امامؑ کے شاگردوں کی تعداد 4 ہزار سے زائد ہے۔ ابن عقدہ نے کتاب رجال میں امام صادقؑ کے 4 ہزار شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں امام کے بہت سارے شاگردوں نے بڑے کارنامے انجام دیےاور امام سے ہزارں کی تعداد میں روایات نقل کیں خاص کر ابان بن تغلب نےامام سے 30 ہزار روایات نقل کیں ہیں۔

حسن بن علی وشا کہتے ہیں: میں نے مسجد کوفہ میں 9 سو مشائخ حدیث سے ملاقاتیں کیں اوران سب کو یہ کہتے ہوئے پایا کہ "جعفر بن محمد کا فرمان ہے "یعنی وہ صرف امام جعفر صادقؑ کے حوالے سے ہی احادیث بیان کیا کرتے تھے۔ شیخ جعفر شہیدی نے زندگانی امام صادقؑ نامی کتاب کے صفحہ 65 پر امام صادقؑ کی شاگردی کرنے والے علماء کا تذکرہ کرتے ہوئےلکھتے ہیں: زرارة بن اعین اور ان کے دو بھائی بکر و حمران۔ جمیل بن صالح، جمیل بن دراج، محمد بن مسلم طائفى، برید بن معاویه، هشام بن حکم، هشام بن سالم، ابوبصیر، عبیدالله، محمد، عمران حلبى، عبدالله بن سنان اور ابوالصباح کنانى جیسے معروف علماء نے نے امام کی شاگردی کی۔

جابر بن حیان شیعہ کثیر الجامع شخصیت، جغرافیہ نگار، ماہر طبیعیات اور ماہر فلکیات تھے۔ تاریخ کا سب سے پہلا کیمیا دان اورعظیم مسلم ان سائنسدان جابر بن حیان جس نے سائنسی نظریات کو دینی عقائد کی طرح اپنایا۔ دنیا آج تک اسے بابائے کیمیا کے نام سے جانتی ہے۔ جب کہ اہل مغرب "Geber"کے نام سے جانتے ہیں۔ جابر بن حیان کو کیمیا کا بانی مانا جاتا ہے۔ وہ کیمیا کے تمام عملی تجربات سے واقف تھا۔ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ جابربن حیان امام صادقؑ کے شاگرد تھے۔

پندرہ شوال کو حاکمِ مدینہ نے زہر آلودہ انگور بھجوائے جن کو کھانے کے بعد آپؑ کی شہادت ہوئی، آپ کے فرزند امام موسیٰ کاظمؑ نے آپ کی تجہیز و تکفین کی اور جنت البقیع میں امام حسنؑ اور امام سجادؑ کے ساتھ دفن کیا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ اتنی بڑی علمی شخصیت اور ایک فقہ کے بانی کے چاہنے والے علم دوست نہیں ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے جعفر صادقؑ نے ایک وقت میں کئی سو شاگردوں کو دین ودنیا کے علوم سکھائے ویسے ہی ان کے شیعہ بھی دنیا کو علومِ آل محمدؑ پہنچا رہے ہوتے مگر ہمارا منبر، ان لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے جن کو سیدھی عربی پڑھنابھی نہیں آتی۔ ہمیں امام جعفر صادقؑ کے علوم کو اپنی آنی والی نسل تک منتقل کرنا چاہیے۔