1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (5)

متولیِ کعبہ (5)

حضرت عیسیٰؑ کی ولادت سے تقریباً دو ہزار ستر سال قبل اور نبیِ پاکؐ کی آمد سے دو ہزارچھ سو چالیس سال پہلے زمزم کا چشمہ حکمِ خدا سے جاری ہوا، جہاں اب خانہ کعبہ موجود ہے یہ اسی مقام کے قریب تھا، بنی جرھم نامی قبیلہ اس کے قریب آکر آباد ہوا، جب حضرت اسمٰعیلؑ جوان ہوے تو جنابِ حاجرہؑ نے آپ کی شادی ایک مصری لڑکی سے کردی جسے بعد میں آپ نے طلاق دے دی، پھر حضرت اسمٰعیلؑ نے قبیلہ بنی جرھم کے ایک رئیس کی بیٹی اعلہ سے شادی کی، خانہ کعبہ کے متولی حضرت اسمٰعیلؑ تھے پھر ان کے بعد ان کے بیٹے نبایوط متولی بنے، تقریباً پانچ سو سال تک بنی اسمٰعیلؑ کعبے کے متولی رہے، اس کے بعد بنی جرھم نے کعبہ اور زمزم پر قبضہ کرلیا، بنی جرھم نے خانہ کعبہ کے امور میں بدعنوانیاں کیں تو یمن سے آئے ایک اور قبیلہ بنی خزاعہ نے بنی اسمٰعیل سے مل کر بنی جرھم کو وہاں سے نکال دیا، شکست خوردہ جرھم خانہ کعبہ کو چھوڑنے سے پہلے تمام تر اسلحہ اور شاہِ فارس اسفند یار کی طرف سے دو سونے کے ہرن جو اس نے کعبہ پہ چڑھاوا چڑھایا تھا، زمزم کے کنویں میں ڈال کر کنویں کو پتھروں سے بھر دیا اور اوپرسے مٹی ڈال کر اسے زمین کے ساتھ برابر کردیا، بعد میں آنے والوں کو زمزم کے کنویں کا کوئی نشان نہ ملا۔

چونکہ اب یہاں اولادِ اسمٰعیل موجود نہ تھی تو اللہ نے یہ دیا ہوا انعام واپس لے لیا، تب ان لوگوں نے مکہ سے باہر خم اور مرہ نامی دو کنویں کھدوائے، سینکڑوں سال بعد بنی اسمٰیلؑ میں ایک قصٰی نامی شخص پیدا ہوا اور اس نے 430ء میں بنی کنانہ اور بنی قضاعہ کی مدد حاصل کرکے بنی خزاعہ سے خانہ کعبہ کا قبضہ واپس لے لیا، اس طرح دوبارہ بنی اسمٰعیلؑ خانہ کعبہ کے قریب آباد ہوئے، قصیٰ کے بعد عبدمناف ان کے بعد ہاشم اور ہاشم کے بعد مطلب اور پھر ان کے بعد جنابِ عبدالمطلب متولیِ کعبہ بنے۔ تقریباً ایک ہزار سال تک زمزم کا کنواں زیر زمین رہا۔

جب بنی اسمٰعیلؑ کو اللہ نے دوبارہ کعبہ کی تولیت سونپی تو زمزم کو بھی ظاہر کیا، جنابِ عبدالمطلب کا حجاج سے حسنِ سلوک اور حجاج کی خدمت کو دیکھتے ہوئے اللہ نے زمزم عبدالمطلب کو دینے کے لئے ایک خواب کے ذریعہ اشارہ دیا۔

جب عبدالمطلب کی عمر 34 سال تھی تو متولیِ کعبہ بنے ابھی پانچ سال ہی ہوئے تھے تو آپ نے ایک حیران کن خواب دیکھا، اس خواب کو حضرت علیؑ یوں روایت کرتے ہیں:

میرے دادا عبدالمطلب نے کہا، میں مقامِ حجر میں سو رہا تھا کہ ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کہا طیبہ کو کھودو، میں نے پوچھا طیبہ کیا ہے تو وہ واپس چلا گیا، دوسرے دن میں پھر اپنی آرام گاہ میں سونے آیا تو پھر خواب دیکھا اور اس آنے والے نے کہا برہ کو کھودو، میں نے پوچھا برہ کیا ہے؟ تو وہ واپس لوٹ گیا، تیسرے دن میں اپنی آرام گاہ میں پہنچا اور سو گیا پھر خواب دیکھا اور آنے والے نے کہا مضنونہ کو کھودو، میں نے پوچھا مضنونہ کیا ہے تو وہ واپس لوٹ گیا، چوتھے روز وہی خواب دیکھا تو اس آنے والے نے کہا زمزم کو کھودو میں نے پوچھا زمزم کیا ہے تو اس نے کہا وہ کنواں جو کبھی نہ سوکھے گا، اور اس کا پانی کبھی کم نہ ہوگا، وہ حج کرنے والے بڑے بڑے گروہوں کو سیراب کرے گا، وہ اس وقت لید اور خون کے درمیان کے گھونسلے کے پاس چیونٹیوں کی بستی کے قریب ہے۔

نوٹ: متولیِ کعبہ کے عنوان سے جنابِ عبدالمطلب پر یہ قسط وار تحاریر میں مختلف تاریخی کتب اور انٹرنیٹ سے سرچ کرکے لکھ رہا ہوں، آخری قسط میں تمام کتب کے نام بھی درج کردوں گا۔