1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. علی اصغر/
  4. متولیِ کعبہ (12)

متولیِ کعبہ (12)

حضرت عبدالمطلب جب ابرہہہ سے مل کر مکہ واپس آئے تو قریش کی نظریں آپ پر تھیں، امیہ کا بیٹا حرب جو پہلے دن سے آپ کے خلاف تھا وہ بھی اس انتظار میں تھا کہ عبدالمطلب اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ اور عبدالمطلب کے تمام مخالفین یہی سوچ رہے تھے کہ آخر متولیِ کعبہ اللہ کے گھر کو دشمن سے کیسے بچائے گا؟ مگر ادھر عبدالمطلب بالکل مطمئن نظر آتے تھے، ایک دن آپ نے تمام قریش اور باقی قبائل کو جمع کیا اور کہا تم سب تک خبر پہنچ چکی ہے کہ یمن کا ایک بہت بڑا لشکر ہاتھی لے کر مکہ پر چڑھائی کرنے کو پہنچ چکا ہے، ابرہہہ کا مقصد خانہ کعبہ کو مسمار کرنا ہے پر تم لوگ بالکل پریشان نہ ہوں جس کا یہ گھر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔

پھر آپ نے وہ دو سو اونٹ جو ابرہہہ سے بازیاب کروا لائے تھے، سب کو خانہ کعبہ پہ نذر چڑھا دئیے، دو سو اونٹ ذبح کرنے کے بعد آپ نے اہلیانِ مکہ سے کہا اپنے گھر کے ہر فرد کے لئے الگ الگ جتنا چاہے گوشت لے جاو، ایک طرح سے یہ حفاظتی تدبیر تھی کہ اگر ابرہہہ کا گھیراو طویل ہوگیا تو اہلِ مکہ بھوک سے نہ مرجائیں، اس کے بعد آپ تمام لوگوں کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ کے دروازہ کے سامنے پہنچے، در کی زنجیر کو پکڑا اور گڑ گڑا کر دعا کی: اے اللہ بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تُو بھی اپنے گھر کو بچا لے ایسا نہ ہو کل کو ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب آجائے، اگر تُو ہمارے قبلہ کو ان پر چھوڑنے لگا ہے تو جو چاہ حکم کر۔

رات بھر آپ بیدار رہے، صبح آپ کو خبر ملی کہ ابرہہہ لشکر مکہ کی جانب لا رہا ہے، آپ نے اہلِ مکہ سے کہا تم سب لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر پہاڑوں پر چڑھ جاو اور اس لشکر کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھو، سب لوگ گھر خالی کرکے پہاڑوں پر چلے گئے اور ابرہہہ کے لشکر کا انتظار کرنے لگے۔

ابرہہہ نے حکم دیا کہ صرف ہاتھیوں کو آگے رکھا جائے تاکہ خانہ کعبہ کی دیواروں کو ان کی ٹکر سے گِرا دیا جائے اور اگر مکہ والے جوابی حملہ کریں تو فوج بھرپور جواب دے، ابرہہہ کا بہت بڑی جسامت کا محمود نامی ہاتھی سب سے آگے تھا، جوں ہی خانہ کعبہ کی حدود میں داخل ہوا تو رُک گیا، فیل بان اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہے تھے مگر ایسا محسوس ہوتا تھا کوئی غیر مرئی طاقت نے سب ہاتھیوں کو روک رکھا ہے، اتنے میں آسمان پر سیاہی چھا گئی اور سب نے دیکھا کہ لاتعداد پرندے جن کے سر پرندوں جیسے اور پنجے کتوں جیسے تھے، ان پرندوں نے اپنی چونچوں میں مسور کی دال جتنے پتھر لے رکھے تھے، جیسے ہی ابرہہہ کے لشکر کے اوپر یہ پرندےپہنچے اور لشکر پر یہ کنکریاں برسائیں تو جس ہاتھی یا سپاہی کو وہ کنکری لگتی وہاں سوراخ ہوجاتا اور گوشت الگ ہوجاتا اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا، ہاتھی اس اچانک حملہ سے گھبرا گئے اور بپھر گئے اپنے لشکر کے کئی لوگوں کو کچل ڈالا، ان پرندوں نے چند لمحات میں سارا منظر ہی بدل ڈالا، پورا لشکر واپس بھاگنے پر مجبور ہوگیا اور واپسی پر ابرہہہ بھی ہلاک ہوگیا۔

خدا نے اپنے گھر کو بچا لیا، لشکر واپس چلا گیا، اہلیانِ مکہ پہاڑوں سے واپس اتر آئے اور ان کے گھر بالکل سلامت تھے اور خانہِ خدا بھی اپنی پوری شان و شوکت سے موجود تھا۔ اس واقعہ کے بعد قریش کے اذہان بدل گئے وہ اب عبدالمطلب کے احد خدا کی طرف راغب ہونے لگے، پورے عرب میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ قریش کے خدا نے اپنے گھر کو بچا لیا، قریش کے لئے یہ بات قابلِ فخر تھی اور سب حیران بھی تھے کہ عبدالمطلب کو آخر کس نے خبر دی کہ کوئی اس کے خدا کے گھر کو ابرہہہ کے لشکر سے بچا لے گا؟ اس واقعہ کے چالیس سال بعد اللہ نے قرآنِ پاک میں اس واقعہ کا ذکر سورة الفیل میں کیا ہے۔

جاری ہے۔