1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. قدر و قیمت

قدر و قیمت

ایک گاوں کا بڑا زمیندار کسی کام سے شہر آیا۔ شہر میں اسکے دوست نے ایک سیانے وکیل سے ملنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی بتایا کہ وکیل بہت دانش اور حکمت کی باتیں اور نصیحتیں کرتا ہے۔ زمیندار اپنے کام سے فارغ ہو کر وکیل سے ملنے چلا گیا، وکیل سے کہا: "مجھے نصیحت فرما دیں"۔ وکیل بولا۔ " میری ایک نصیحت کی فیس ہزار روپے ہے"۔ زمیندار کے تجسس میں اضافہ ہو گیا وہ سوچنے لگا یقیناً یہ کوئی اچھی نصیحت کرتا ہو گا جب ہی فیس زیادہ ہے۔ زمیندار نے ہزار روپے وکیل کو دیے۔ وکیل نے کہا۔ "میرے نصیحت ہے کہ آج کا کام کل ہر مت چھوڑو"۔ زمیندار نے دل میں سوچا کہ اس میں کیا بڑی بات ہے یہ بات تو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں خواہ مخواہ ہزار روپے ضائع کر دیے۔ زمیندار گاوں واپس آگیا۔ اس دن گندم کی کٹائی تھی۔ شام تک ساری گندم کاٹ دی گئی۔ رات ہونے کو تھی اس لئے مزدوروں نے زمیندار سے کہا، دوسرے زمینداروں کی طرح ہم بھی گندم کو کل گودام میں رکھ دیں گے ابھی رات ہونے والی ہے۔ زمیندار نے ایک ہزار روپے خرچ کر کے یہ بات سیکھی تھی کہ آج کا کام کل پر نہیں چھوڑنا، اس نے کہا۔ " نہیں چاہے رات بیت جائے ساری گندم آج ہی گودام میں رکھنی ہے"۔ زمیندار کی خواہش کے مطابق رات میں ہی ساری گندم گودام میں رکھ دی گئی۔ اس کے برعسکس دوسرے زمینداروں نے گندم کو کٹائی کے بعد گوداموں میں نہیں رکھا۔ اتفاق سے رات کے آخری پہر بارش ہو گئی اور اس زمیندار کو چھوڑکر باقی سب کی گندم بھیگ گئی۔ زمیندار نے سوچا وکیل واقعی ہی بہت زہین آدمی تھا وہ اگر مجھ سے ہزار روپے لئے بغیر مجھے یہ نصیحت کر دیتا تو میں گزشتہ زندگی کی طرح اس نصیحت کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا۔ کبھی بھی اس پر عمل نہ کرتالیکن ہزار روپے دینے کی وجہ سے میں نے اس نصیحت پر عمل کیا اور میں نقصان سے بچ گیا۔

ہمارے ایک کولیگ ہیں انہوں نے کچھ دن پہلے اینگر اینڈ سٹریس مینیجمنٹ Anger and Stress Management کے موضوع پر ایک تربیتی نشت اٹینڈ کی۔ انہیں بتایا گیا کہ غصہ کی حالت میں کیا کرنا ہے تاکہ اس کے نقصانات سے بچا جاسکے۔ انہیں سکھایا گیا اگر غصہ آجائے تو آپ فوراً اپنی پوزیشن بدل لیں، اگر آپ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں، سیڑھیاں چڑھنا اترنا شروع کردیں، چلنا شروع کردیں وغیرہ وغیرہ۔ میں نے ان سے کہا۔ یہ تو اسلام کا سکھایا ہوا درس ہے جس کو ہم فراموش کر چکے ہیں اور یہ تربیتی ادارے ڈھیر سارا پیسہ لے کر ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق سکھا رہے ہیں۔ انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا کہ ایسا ہی ہے۔

یہ عادت بھی انسانی سرشت کا حصہ ہے، انسانی فطرت کا جز ہے کہ ہم اس بات کی، اس چیز کی، اس انسان کی، ان رشتوں کی کبھی قدر نہیں کرتے جو ہمارے پاس موجود ہوتے ہیں یا جو رشتے، جو جذبے، جو سبق ہمیں مفت میں ملے ہوتے ہیں۔ آج دنیا بھر کے سائنسدان اپنے اپنی تحقیقات میں اس بات کا برملا اظہار کر رہے کہ وضو، نماز اور روزہ ان عبادات کے جسمانی اور روحانی طور پر کتنے فائدے ہیں لیکن ہم دو دو گھنٹے جم میں لگا دیں گے، دس دس کلو میٹر دوڑ لگا لیں گے لیکن نماز نہیں پڑھیں گے کیونکہ اس کا سبق ہمیں مفت میں ملا ہے اس کے روحانی اور جسمانی فوائدکو ہم نے کسی سے پیسے لے کر نہیں سیکھا ہوتا۔ جبکہ جم میں ہمیں ٹھیک ٹھاک پیسے بھرنا پڑتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست بتایا کرتے تھے کہ ان کے ساتھ ایک نو مسلم نوجوان نماز پڑھتا تھا اور انتہائی خشوع خصوع کے ساتھ لمبے لمبے سجدے کیا کرتا تھا، دوست کہتے ہیں ہم نے نو مسلم نوجوان سے اس بارے میں دریافت کیا تو وہ کہنے لگا آپ لوگ بچپن سے اللہ کی عبادت کر رہے ہیں جبکہ مجھے ابھی ابھی اللہ ملا ہے میں نے بہت وقت ضائع کیا ہے اور اسی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ دوست کہتے ہیں کہ ہم سب حیران تھے کہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ دنیا میں آئے تو سب سے پہلے اللہ اکبر کی صدائیں ہماری سماعتوں سے ٹکرائی تھیں اور بچپن سے ہی ہمیں اللہ کی پہچان ہو گئی تھی لیکن ہمیں اس بات کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا، ہمیں اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کی توقیق ہی نہیں ہوئی کیونکہ ہمیں کسی قسم کی مشقت نہیں کرنا پڑی، کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

میری نظر میں زندگی کا سب سے اذیت دینے والا احساس پچھتاوے کا احساس ہے، کیونکہ اس میں آپ کے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہوتا، یہ تیر کمان سے نکل چکا ہوتاہے، وقت گزر چکا ہوتاہے۔ اسی طرح ہمیں جب کسی نعمت کی قدر کا احساس ہوتا ہے تب تک ہمارے ہاتھ خالی ہو چکے ہوتے ہیں، تب تک ہمارے دامن میں صرف پچھتاوے کے احساسات کی بھاری بھاری گٹھریاں ہوتی ہیں۔ زندگی میں تمام نعمتوں کا شکر کریں، ان تمام علم کو عمل کی چھاننی سے گزاریں جو ہمیں ورثہ میں کسی معاوضے کے بغیر ملے ہیں، تاکہ اس اذیت ناک احساس سے ہم دور رہ سکیں۔ تمام ان رشتوں کی قدر کریں جو آج ہمارے پاس موجود ہیں اور جو کل ہمارے پاس نہیں ہوں گے۔ تمام ان احساسات کی اہمیت کو سمجھیں جس سے باقی دنیا کے لوگ محروم ہیں اور ہر وقت اپنی زبان سے کلمہ شکر ادا کرتے رہیں۔