1. ہوم
  2. کالمز
  3. معاذ بن محمود
  4. کچھ بھی نہیں

کچھ بھی نہیں

منافقت سے پرانی خار ہے۔ ایک وجہ شاید صدیقی صاحب مرحوم بھی ہیں۔ جو لوگ مجھ سے مل چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بالمشافہ ملاقات میں اپنی ترجیح سماعت کا استعمال زیادہ زبان کا کم رہتی ہے۔ یوں بہت ساری خرافاتیں کانوں سنتے ان سنی کرنی پڑتی ہیں۔ اس کا الزام میں کسی حد تک دوسروں خاص کر دوستوں کے لیے لحاظ کو بھی دیتا ہوں۔ تاہم میری نسبت صدیقی مرحوم بالمشافہ منہ پر منہ پھٹ ہونے کا اعزاز رکھتے تھے۔ اس بدلحاظی میں دفتری کولیگ بھی برابر کے متاثرین میں رہتے۔

دفتر کے پشتون "یاروں" کو آپ آئے روز حلیم، نہاری، بریانی وغیرہ سے مستفید کرتے رہتے جس کی براہ راست متاثرہ اماں حضور کو بننا پڑتا۔ یہ کولیگ گھر پر مدعو ہوتے یا کھانا دفتر جایا کرتا جہاں سب دوست یار رل مل کر ٹھونستے اور واہ واہ کرتے مفت کا کھانا کھا کر یہ جا وہ جا ہوجاتے۔ یقیناً سب ایسے نہیں تھے۔ میرے ذہن میں صدیقی صاحب کے اچھے دوستوں کی یادیں خوش قسمتی سے برے دوستوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ انہی اچھے دوستوں میں سے بہت ہی کم آج بھی فیس بک پر ایڈ ہیں۔

بات ہو رہی تھی ابا مرحوم کے "یاروں" کی اور آپ کے منہ پھٹ ہونے کی۔ صدیقی صاحب مرحوم اس معاملے میں اتنے براہ راست قسم کے سیدھی بات کرنے کے عادی تھے کہ ایک کولیگ کی جانب سے حلیم کو گوشت والی دال کہنے کا جواب "اٹھ پ چ یہاں سے" سے دینے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے۔

صدیقی صاحب باہر والوں کے لیے "سیدھی بات نو بکواس" کے زریں اصول پر یقین رکھتے تھے۔ گھر والوں کے لیے اس اصول میں قریب ہک سو ترونجہ فیصد زیادہ شدت رہتی۔ لہذا ان کا ایک رعب سا تھا جو بطور اولاد تو ان کی جنریشن کے لیے ہماری جنریشن کے اندر موجود تھا سو تھا، دفتری احباب کے لیے بھی ایک ٹیکا ضرور رہتا تھا۔ پھر، دوستوں کے لیے دسترخوان کی کشادگی کے باعث ہمیں لگتا تھا یہ صرف دبدبہ نہیں بلکہ محبت اور احترام بھی ہے۔

ہماری تمام خوش فہمیاں البتہ چرس کے بعد موٹرسائیکل پر ہوا کھانے کے بعد مافق ایسے ہوا ہوئیں جیسے پٹواریوں کے دماغ میں سے ووٹ کی عزت۔

ابا مرحوم کی وفات کے دو تین دن بعد ہم نے ان کے آفس سے ان کی چیزیں اٹھا لانے کا ارادہ کیا۔ آفس پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ان کی workplace یعنی کے پی کے اسمبلی میں موجود ان کے کمرے سے ان کا تمام سامان خوب سرعت کے ساتھ اٹھا کر ایک سیاہ صندوق میں پھینک دیا گیا اور صندوق کمرے کے باہر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔

اور یہ تھی انسان کی کل حیثیت۔۔ او پیا جے رعب، او پیا جے دبدبہ، او پیا جے احترام تے او پئی جے محبت۔۔

کئی بار کہہ، لکھ اور بتا چکا ہوں کہ والد مرحوم کے جسد خاکی کو خاک کے سپرد کرتے ہوئے احساس ہوا کہ وہ شخص جس کی ایک آواز پر ہم دوڑے چلے آتے تھے، خود پر مٹی ڈلتے اگر دیکھ رہا ہو تو کیسی عجیب سی بے بسی کے احساس سے گزرا ہوگا۔

اسی روز اس فیصلے پر ایک deliberate اور سوچا سمجھا راسخ اعتقاد مضبوط کیا کہ مجھ سمیت سبھی کی ذات ذرہ بے نشاں ہے۔ حقیقی زندگی میں ایسا ہی ہے۔ سوشل میڈیا پر البتہ انسان الفاظ سے اپنی مرضی، سوچ اور شخصیت کے مطابق مطلب کشید کرتے ہیں۔ ایسے مطالب کی ذمہ داری لینے سے قاصر تھا، ہوں اور رہوں گا۔ کسی نے بدتمیز کہنا ہے، بدتہذیب کہنا ہے، بدلحاظ کہنا ہے یا bully کہنا ہے۔۔ سنجیدگی کے ساتھ پوچھے تو اپنی ذات آڈٹ کے لیے پیش کرتے ہوئے ان تمام اوصاف کی تعریف کے ساتھ ساتھ اپنے ایسے طرز عمل کی پانچ مثالیں مانگوں گا، کہ عادی مجرم ہونے کے الزام کو پرکھا جا سکے۔ اپنی ذات یا اپنے طرز عمل پر بات کرتے ہوئے لفظ "میں" کا استعمال البتہ کسی کو نرگسیت معلوم ہو تو۔۔ ہوتی رہے۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ صدیقی صاحب کے جسد خاکی کو درگور کرتے انہیں کیا فرق پڑا ہوگا؟

کچھ بھی نہیں!

فیس بک پر ایک فقیر زاد موجود ہے جس کی کسی دور میں جب اسے مشکل ترین حالات میں مالی امداد وصول کرنے پر سرعام زلیل کیا جا رہا تھا، میں نے کسی بدلے کی نیت بغیر کچھ مدد کی تھی۔ چند برس اس کی جانب سے محبت کے دعوے سن سن کر کان پکنے کو تھے۔ یہ بات البتہ بھٹی صاحب اور سیٹھار صاحب کے ساتھ محدود محافل میں ریجسٹر کروا چکا تھا کہ یہ۔۔ ڈنک مارے گا۔ ممکن ہے یہ حقیقت بتانی مناسب نہ ہو لیکن اخلاقیات و ظرف سمیت دوطرفہ احترام کا تعلق دوطرفہ ہی ہوتا ہے۔ جب یک طرف یکی پر اتر آئے تو میرا تو ویسے بھی یسوع مسیح ہونے کا دعویٰ نہیں۔ بہرحال جس وقت فقیر زاد کی مدد کی جا رہی تھی تب اسے باچیز میں کوئی عیب نظر نہیں آتا تھا۔ آج اسے لگتا ہے معاذ صاحب خبطِ خود ساختہ عظمت کا شکار ہیں۔

حساب کتاب کو لے کر میرا بابا البتہ آج بھی اوپر ہی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ اس حساب کتاب کا بدلہ مجھے سود سمیت میری برائیوں کی صورت ملتا ہے، رہے گا۔

لیکن بات پھر وہی آتی ہے۔۔

صدیقی صاحب کے جسد خاکی کو درگور کرتے انہیں کیا فرق پڑا ہوگا؟

کچھ بھی نہیں!

مجھے اپنی ذات سے منسوب برائیاں سن کر کیا فرق پڑتا ہوگا؟

کچھ بھی نہیں!

صفر۔۔ صفر رہتا ہے۔ وہ کسی بھی عدد کے ساتھ ضرب کھا جائے، نتیجہ صفر ہی آتا ہے۔ آپ کسی عقل رکھنے والے کو مہذب دنیا میں چھوڑ دیں، پانی کی طرح وہ اپنا راستہ خود ڈھونڈ لے گا۔ آپ کسی نالائقِ مطلق کو کائنات بھر کے مواقع دے ڈالیں، اس کا نتیجہ بھی صفر ہی رہے گا۔

فقیر زاد کی حیثیت میرے لیے صفر سے زیادہ کچھ نہیں۔ ابا مرحوم مگر میری یادوں کے توسط اور میرے الفاظ کے وسیلے سے آج بھی زندہ ہیں۔ وہ زندہ ہی رہیں گے۔ ان "دوستوں" کے برعکس جنہوں نے دو دن کے اندر میرے باپ کی نشانیوں کو اپنے اردگرد سے مٹانے کی ناکام کوشش کی۔

فقیر زاد اور صدیقی صاحب مرحوم کے ان برادرانِ یوسف میں کچھ فرق نہیں۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔