1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی سلطان/
  4. سنگاپور کا کمال

سنگاپور کا کمال

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سنگاپور دنیا کے 180 ملکوں میں تیسرا کرپشن فری ملک ہے 2017 میں سنگاپور کا نمبر 6 واں تھا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جو ملکوں کے عوامی اداروں میں ہونے والی بدعنوانی کے مطابق درجہ بندی کرتا ہے۔ سنگاپور نے 100 میں سے 85 پوائنٹ حاصل کیے، ڈنمارک 88 نمبر کے ساتھ پہلے نمبر پر اور نیوزی لینڈ 87 پوائنٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل عوامی اداروں میں ہونے والی بدعنوانی کی پیمائش مختلف طریقوں سے کرتی ہے اُس میں رشوت کی شرح، عوامی فنڈز میں خُرد بُرد اور مفادات میں تنازعات سرفہرست ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں معاشی ترقی کے بارے میں قیاس آرائی کی جا سکتی ہے لیکن جب تک بدعنوانی کا مکمل خاتمہ نہیں ہو تا ترقی کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

سنگاپور پاکستان کے بعد آزاد ہوا جس وقت انگریز سنگاپور چھوڑ کرگئے اُس کے قانونی ادارے کمزور تھے تقریباً آبادی اَن پڑھ تھی فی کس آمدنی بہت کم تھی تقریباً تمام ادارے کرپٹ تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اُنھوں نے کمال کر دیا اور بہت ہی کم وقت میں سنگاپور کو کرپشن سے پاک کر دیا۔

لی کوان یو سنگاپور کے پہلے وزیراعظم تھے اور وہ تقریباً 40 سال تک ملک کے وزیراعظم کی کرسی پر براجمان رہے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ 10سال سے زیادہ اقتدار کے ساتھ چپکے رہنے والے شحص کو عوام آمر کہنا شروع کر دیتے ہیں لیکن 40 سال اقتدار پر رہنے کے بعد بھی عوام اُن کو فادر آف دی نیشن کے نام سے یاد کرتی ہے۔

آزادی سے پہلے ملک میں سی پی آئی بی Corrupt Practices Investigation Bureau کے نام سے ادارہ تھا جس کا کام بدعنوانی کو کنٹرول کرنا تھا لیکن وہ اتنا خود مختار اور فعال نہیں تھا۔ لی کوان یو نے وزیراعظم بننے کے بعد سب سے پہلے سی پی آئی بی کو خود مختار تحقیقاتی ادارہ بنایا وہ کتنا خود مختار ادارہ تھا اس کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا لیں کے متعدد بار سی پی آئی بی نے لی کوان یو اور اُن کی فیملی سے پوچھ گچھ کی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے کرپشن کا خاتمہ اور اداروں کا احتساب بہت ضروری عمل ہے۔ سی پی آئی بی کو تمام سرکاری اور نجی اداروں کے کسی بھی ورکر سے لے کر وزیر تک تمام سے کسی بھی وقت بدعنوانی کی تحقیقات کا احتیار حاصل ہے۔ بلکہ نہ صرف ادارے سے جُڑے لوگ بلکہ اُن کی فیملیز اور فرینڈز سے بھی تفتیش کر سکتی ہے۔ دنیا بھر میں یہ سوچ عام ہے کہ نجی اداروں میں بدعنوانی لینے اور دینے والے کا ذاتی معاملہ ہے لیکن سنگاپور میں ایسا نہیں ہے اُن کا ماننا یہ ہے کہ نجی شعبے میں بدعنوانی بھی عوامی مفاد کو متاثر کرتی ہے۔ سی پی آئی بی نے اپنی مختلف سرگرمیوں کے دوران بہت بار وفاقی وزراء ججز اور اداروں کے سربراہان کو گرفتار کیا ہے اور جُرم ثابت ہونے کے بعد اُن کے تمام اثاثہ جات کو سرکاری خزانے میں جمع کروایا ہے لیکن وہاں پر کبھی جمہوریت کو خطرہ لا حق نہیں ہوا کبھی کرپٹ شخص کے حامی اُس کو بچانے کے لیے سڑکوں پر نہیں آئے، کبھی کسی نے نہ این آر او مانگا نا کبھی کسی نے سیاست بچانے کے لیے کرپٹ چوروں کو ملک سے بھاگ جانے کی اجا زت دی۔

اگر ہم پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی سنگاپور والے ماڈل پر جانا پڑے گا جہاں کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہو گا جہاں ہر شخص کا احتساب ہو گا چاہے وہ کتنا بھی طاقتور ہو۔

علی سلطان

علی سلطان کا تعلق جہلم سے ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں بطور مینجر سیلز کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ 15 سال سے لاہور میں مقیم ہیں۔ سیاست کے بارے اظہار خیال کرنا پسند کرتے ہیں۔