1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. امجد عباس/
  4. فقیہءِ شہر کی سادہ لوحی، ایسے نہیں چلے گا!

فقیہءِ شہر کی سادہ لوحی، ایسے نہیں چلے گا!

فقہاءِ اسلام کی سادہ لوحی نے مُسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے۔ عمومی مقاصدِ شریعت، احکام کی علتوں، زمان و مقام کی تبدیلی اور اِن جیسے امور سے غفلت کی وجہ سے فقہ میں موجود جمود پختہ تر ہوتا جارہا ہے۔ عام طور پر شرعی احکام مخصوص مقاصد کے تحت بیان کیے گئے، اب فقہاء کی ذمہ داری ہے کہ احکام کی علتوں اور مقاصد کو بھی مدنظر رکھا جائے، تب ہی قابلِ قبول فتویٰ سامنے آ سکتا ہے۔ چند مثالیں پیش کرتا ہوں، جہاں اصل مقاصد کو مدنظر نہ رکھنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

1- عربوں میں لڑائی کے موقع پر انسانی لاشوں کو جلانا، مثلہ (چیڑ پھاڑ) کرنا، لاش کی بے حُرمتی کرنا ، قبروں کو اُکھیڑنا جیسے قبیح اعمال رائج تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بلا امتیاز میت کے احترام کی تعلیم دی۔ اِسی احترام کے پیش نظر، یہ سبھی شنیع افعال حرام قرار دے دیئے گئے۔

آج قتل کے اسباب جاننے اور بسا اوقات اعضاء کی ڈونیشن کے پیش نظر میت کا پوسٹ مارٹم (چیڑ پھاڑ) کرنا پڑتا ہے، اِس کا مقصد بے حُرمتی ہرگز نہیں ہوتا۔ بعض سادہ لوح فقہاء نے ظاہر پر بناء رکھتے ہوئے، پوسٹ مارٹم اور چیرپھاڑ کو حرام گردانا جانا ہے، یُوں اُمت کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

2- بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں، عرب غرور اور تکبر کے اظہار کے لیے ٹخنوں سے نیچے تک کپڑا لٹکاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غرور کی علامت کو ختم کروایا، آج بھی بعض سادہ لوح فقہاء کے نزدیک شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بھی منع ہے، گویا مُسلم اور غیر مُسلم شلوار بھی الگ۔

3- بت پرستی سے نجات دلانے کے لیے، مجسمہ سازی، تصویر سازی کی ممانعت کی گئی۔ اب جبکہ ایسے خدشات موجود نہیں ہیں، ظاہر پرست فقہاء کے ہاں آج بھی مجسمہ سازی، تصاویر اور ویڈیو بنانا جائز نہیں۔ ماضی میں کئی مسلمانوں نے حج نہ کیا کہ پاسپورٹ پر فوٹو لگوانا پڑتا ہے، جو جائز عمل نہیں۔

4- عربوں کے ہاں محفل ناچ و گانا میں شراب اور دیگر سبھی بُرے اعمال انجام دیئے جاتے تھے، قرآن و سنت میں اِنھیں لغو اور لھو قرار دے کر، نیز دیگر حرام کاموں کو دیکھتے ہوئے منع کیا گیا۔ ہمارے فقہاء کی اکثریت ہر قسم کی موسیقی کو منع جانتی ہے خواہ اُس کے ساتھ شراب نوشی، زنا اور دیگر شنیع افعال نہ بھی ہوں۔

5- روزے میں طُلوعِ فجر سے ( عُرفی) مغرب کے وقت تک کھانے پینے سے منع کیا گیا، فقہاء نے طلوعِ فجر اور مغرب کے تعین کی ایسی دقتیں کی ہیں کہ عام مسلمان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ مدینہِ نبی کا سادہ مُسلمان بغیر کسی سائنسی آلہ کے روزہ رکھتا، کھولتا تھا لیکن آج۔۔۔

بہت سی مثالیں پیش نگاہ ہیں، لیکن بس اتنا کہوں گا کہ جدید مسائل میں عمومی مقاصد کی پاسداری کرنا ہوگی، احکام کی ظاہری شکلوں پر ڈٹے رہنے سے فقہ جمود سے نہیں نکل سکتی۔ فقہاء کرام کو بین الاقوامی معاہدات، ریاستی قوانین، مکان و زمان کے بدلتے تقاضوں اور احکام کی رُوح کو مدنظر رکھنا ہوگا، تب ہی فتاویٰ مؤثر اور قابلِ عمل ہوں گے۔