1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. امجد عباس/
  4. "خوارج " کا تسلسل جاری ہے (2)

"خوارج " کا تسلسل جاری ہے (2)


"خوارج " کا تسلسل جاری ہے (2)


"خوارج" تاریخِ اسلام کا بدبخت گروہ، جس کی بنیاد ہی امیر المؤمنین امام علیؑ کی دشمنی پر تھی، بظاہر یہ ٹولہ ماضی کا حصہ دکھائی دیتا ہے، تاہم غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ "خوارج" کی فکر آج بھی موجود ہے، آج بھی امام علیؑ اور اہلِ بیتِ نبویؑ سے بُغض و عناد رکھنے اور اُن پر جھوٹے الزامات لگانے والا گروہ پایا جاتا ہے، ہاں اب یہ کام "تحقیق" کے نام پر انجام پاتا ہے۔


ایک روایت ملاحظہ کیجیے، جسے امام حاکم نے اپنی "المستدرک" میں درج کیا جبکہ حافظ ذہبی نے اِس کی تصحیح کی ہے۔


أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ دُحَيْمٍ الشَّيْبَانِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمٍ الْغِفَارِيُّ، ثنا أَبُو نُعَيْمٍ، وَقَبِيصَةُ، قَالَا: ثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَعَانَا رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْخَمْرِ، فَحَضَرَتْ صَلَاةُ الْمَغْرِبِ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ " فَقَرَأَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ فَالْتَبَسَ عَلَيْهِ فَنَزَلَتْ {لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ} [النساء: 43] الْآيَةُ


حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ ایک انصاری نے ہمیں شراب کے حرام قرار دیئے جانے سے پہلے، اپنے ہاں بُلایا۔ اتنے میں مغرب کا وقت ہوگیا، وہ آدمی سورہ کافرون پڑھنا چاہ رہا تھا لیکن بھول گیا، تب یہ آیت نازل ہوئی کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے، جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔


اِس صحیح روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام حاکم یُوں تبصرہ فرماتے ہیں


وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ فَائِدَةٌ كَثِيرَةٌ وَهِيَ أَنَّ الْخَوَارِجَ تَنْسِبُ هَذَا السُّكْرَ، وَهَذِهِ الْقِرَاءَةَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ دُونَ غَيْرِهِ وَقَدْ بَرَّأَهُ اللَّهُ مِنْهَا فَإِنَّهُ رَاوِي هَذَا الْحَدِيثِ


(المستدرك على الصحيحين، دار الكتب العلمية - بيروت، ط1۔ ج2، صفحہ 336، حدیث 3199)


کہ اِس حدیث میں بہت فائدہ ہے وہ یہ کہ خوارج شراب پینے اور نماز میں سورہ ٹھیک نہ پڑھنے کی نسبت صرف امام علیؑ کی طرف دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اِس تہمت سے بری کردیا ہے۔


شارحِ سُنن ابی داؤد، علامہ محمد اشرف عظیم آبادی، سُنن ابی داؤد کی اُس روایت کے ذیل میں کہ جس میں امام علیؑ پر شراب پی کر جماعت کرانے کی تہمت لگائی گئی ہے (نعوذ باللہ) لکھتے ہیں کہ حافظ مُنذری کہتے ہیں کہ حضرت علیؑ کی طرف شراب پی کر نماز پڑھانے کی روایت سُنن ترمذی اور سُنن ابی داؤد میں ہے، لیکن یہ روایت درست نہیں ہے، اِس کی سند اور متن، ہر دو میں اشکال ہے


وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي إِسْنَادِهِ وَمَتْنِهِ فَأَمَّا الِاخْتِلَافُ فِي إِسْنَادِهِ فَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ فَأَرْسَلُوهُ وَأَمَّا الِاخْتِلَافُ فِي مَتْنِهِ فَفِي كِتَابِ أَبِي دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيِّ ما قدمناه وفي كتاب النسائي وأبو جَعْفَرٍ النَّحَّاسِ أَنَّ الْمُصَلِّيَ بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَفِي كِتَابِ أَبِي بَكْرٍ الْبَزَّارِ أَمَرُوا رَجُلًا فَصَلَّى بِهِمْ وَلَمْ يُسَمِّهِ وَفِي حَدِيثِ غَيْرِهِ فَتَقَدَّمَ بَعْضُ الْقَوْمِ


(حافظ مُنذری کہتے ہیں) کہ اِس روایت کی سند اور متن میں اختلاف ہے۔ اِسے سفیان ثوری اور ابوجعفر رازی نے عطاء بن سائب سے ارسال کے ساتھ نقل کیا ہے، جبکہ اِس کے متن میں مشکل ہی ہے کہ ابو داؤد اور ترمذی کی کتاب میں سے ہم نے اِسے پیش کردیا ہے (نسبت امام علیؑ کی طرف ہے) جبکہ امام نسائی اور ابو جعفر نحاس کی کتاب میں (اِسی روایت میں ہے کہ ) نماز عبد الرحمان بن عوف نے پڑھائی (وہی شراب میں تھے اور تلاوت بھول گئے) ابوبکر بزاز کی کتاب میں ہے کہ ایک آدمی نے (شراب پی کے) جماعت کرائی، اُس آدمی کا نام نہیں لیا گیا، اِس کے علاوہ روایات میں کسی فرد نے جماعت کرائی جیسے الفاظ ہیں۔


(عون المعبود شرح سنن أبي داود، ومعه حاشية ابن القيم، دار الكتب العلمية - بيروت، ط2۔ ج10، صفحہ 78، حدیث 3671)


خُلاصہ:


1- امام علیؑ پر "شراب پینے اور اُسی حالت میں نماز پڑھانے" کی تہمت "خوارج" لگاتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو گناہوں سے پاک رکھا۔


2- آج بھی خورج کے ہم خیال، "الفئۃ الباغیۃ" شمار کیے جانے والے افراد اِس تہمت کو، سند اور متن نادرست ہونے کے باوجود اُچھالتے ہیں۔


(آج بھی "خوارج" کو پہچانا جا سکتا ہے)


3- فضائل میں ضعیف احادیث بھی قبول کر لی جاتی ہیں، جبکہ ہمارے ہاں معاملہ برعکس ہے۔ فضائلِ امام علیؑ اور اہلِ بیتؑ میں آنے والی صحیح اور حسن درجے کی احادیث کا انکار کیا جاتا ہے اور اُن کی توہین پر مبنی، خارجیوں کی جھوٹی روایات کو بار بار دُہرایا جاتا ہے۔