1. ہوم/
  2. اسلامک/
  3. امجد عباس/
  4. تسامحات، مبانی کے اختلاف اور دیگر مسائل کا شیعی علومِ حدیث پر اثر

تسامحات، مبانی کے اختلاف اور دیگر مسائل کا شیعی علومِ حدیث پر اثر

اہل تشیع محدثین کے ہاں، مقبول احادیث کے تعین میں اختلاف رہا ہے۔ قدماء کے نزدیک قابلِ عمل حدیث کو صحیح سمجھا جاتا تھا، خواہ سند جیسی بھی ہو۔ اِس کے مقابلے میں ہر اُس حدیث کو چھوڑ دیا جاتا تھا جس پر قدماء نے عمل نہ کیا ہو، خواہ سند کیسی جید ہو۔

متاخرین میں دو رجحان سامنے آئے، ایک توثیقِ عام، جیسے ایک خاص کتاب کی سبھی روایات کو درست مان لینا، جیسے کامل الزیارات اور کتبِ اربعہ کے متعلق بعض محدثین کی رائے۔

دوسرا ناقلِ حدیث کے اعتبار سے حدیث کو قبول یا رد کرنا، یُوں حدیث کو صحیح، حسن، مؤثق اور ضعیف میں تقسیم کرنا، کہا جاتا ہے کہ اِس رجحان کو سید ابنِ طاؤوس اور علامہ حلی نے اپنایا، یہ رجحان پھر عام ہوگیا، معاصر فقہاء میں اسے آیۃ اللہ الخوئی نے اپنایا۔ آیۃ اللہ آصف محسنی نے اسی روش پر مشرعۃ بحار الانوار کو مرتب کیا ہے۔ معاصر شیعہ فقہاء اسی روش پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔

زمانے کی سختی، حالات کی تلخی، مخالف حکمرانوں کے جبر، شیعہ علماء و محدثین کے تقیے اور ایسی دیگر مشکلات کی بنا پر آئمہ اہلِ بیت علیھم السلام کے ارشادات کو مکمل محفوظ نہ کیا جا سکا۔ آئمہ کے اصحاب کی کتب ضائع کی گئیں۔ یہی وجہ ہےے کہ آج بھی شیعی علمی میراث میں ایک سلسلہ گُم ہے، تب ہی اِس کا آغاز بظاہر چوتھی صدی ہجری سے ہوتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ، چوتھی، پانچویں صدی کے عظیم شیعہ محدث، شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی، نے بغداد میں قدیم اور نایاب شیعی علمی میراث کو جمع کر رکھا تھا۔ الطوسی کی لائبریری میں نایاب ترین کتابیں تھیں۔ بدقسمتی سے بغداد میں فرقہ وارانہ تصادم کے نتیجے میں الکرخ نامی محلے میں الطوسی کے نادر و نایاب کتاب خانے کو نذرِ آتش کردیا گیا، یُوں شیعی علومِ قرآن و علومِ حدیث کی قدیمی کتب ضائع ہو گئیں۔ اِس کے علاوہ، تیسری اور چوتھی صدی ہجری تک، احادیثِ اہلِ بیت کو جمع کر کے کتبِ اربعہ کو ترتیب دیا جا چکا تھا، جن پر بڑے بڑے علماء اعتبار کرتے تھے۔

شیعہ محدثین نے آئمہ اہل بیت سے کثرت سے احادیث نقل کی ہیں کہ اُن پر لوگ جھوٹ بولتے ہیں، فُلاں فُلاں راوی جھوٹے ہیں لیکن الگ سے من گھڑت احادیث پر کام نہیں کیا گیا۔

تیسری صدی ہجری سے تیرہویں صدی ہجری تک، میرے علم کے مطابق، کسی شیعہ محدث نے من گھڑت (موضوع) احادیث کو الگ نہ کیا۔ چودہویں اور معاصر صدی میں چند علماء نے اپنے انداز سے کسی قدر موضوعات پر قلم اُٹھایا لیکن یہ کام انتہائی ابتدائی نوعیت کا ہے۔

حدیث کو لینے کے حوالے سے شیعہ علماء تسامح سے کام لیتے رہے ہیں۔ ہاں مبانی کا اختلاف بھی موضوع روایات کی تعیین سے مانع رہا ہے۔ میری ذاتی رائے میں اثنا عشری شیعی نظریات بھی اسماعیلی باطنیت سے قدرے متاثر ہوئے ہیں، شاید ذخیرہء احادیث سے من گھڑت احادیث کو الگ نہ کرنے اور احادیث کو لینے میں تسامح سے کام لینے میں بھی باطنیت اثر انداز رہی ہے کہ ہو سکتا ہے حدیث ظاہرہ پہلو سے نادرست لیکن کسی باطنی تاویل سے درست ہو یا ہم اس کی حقیقت سے آشنا نہ ہوں، لہذا اسے رد نہ کرنا ہی بہتر ہے، ہاں اس کا علم، ہمیں نہیں، یُون من گھڑت احادیث جدا نہ کی گئیں۔

شیعہ جمہور علماء، عقائد میں خبر واحد کو قبول نہیں کرتے لیکن عملی لحاظ سے خبر واحد کیا، بلا سند روایت کو بھی عقائد میں بطورِ نص پیش کیے جانے کا رواج عام ہے، جیسے لولاک لما خلقت الافلاک، قابلِ قبول لیکن لولا علی لما خلقتک، لولا فاطمۃ لما خلقتکما۔۔۔ ایک مجہول السند خبر واحد ہے لیکن اِس پر عقائد کی بنیادیں استوار کی گئیں۔ اصول فقہ میں حجیتِ خبر واحد کی طولانی مباحث آج بھی شاملِ درس و تدریس ہیں لیکن عملی طور پر فقہ میں آج بھی ضعیف اخبارِ آحاد کی بھرمار ہے۔ شیعی اصولِ فقہ اور فقہ میں بظاہر ایک بڑا گیپ ہے، اسی کی بابت المجلسی نے بحار الانوار میں اجماع کی بحث کے ذیل میں لکھا کہ الاصولیون اذا رجعوا الیٰ الفقہ نسوا ما بنوا علیھا فی الاصول کہ اصولی علماء، جب فقہ میں آتے ہیں تو اپنے اُن قواعد کو بھول جاتے ہیں جنھیں اصولِ فقہ میں بیان کرتے ہیں۔

عصرِ حاضر میں شیعہ محققین کی ذمہ داری ہے کہ علومِ حدیث کے مبانی پر از سر نو، بحث کر کے، حجیت کو طے کر کے صحیح کو سقیم سے، من گھڑت کو اصل سے جُدا کیا جائے۔ موضوع احادیث، غریب الحدیث، شرائط قبولِ حدیث پر بھی کام کیا جائے نیز فقہ و اصول فقہ میں دوریوں کا جائزہ لیکر اِنھیں حل کیا جائے۔ یہاں پر ایک مثال عرض کروں گا کہ معاصر فقہاء کی اکثریت، شہرت (روائی و فتوائی ہر دو) کو حجت نہیں مانتی لیکن استاذ الفقہاء البروجردی سے معاصر آیۃ اللہ السبحانی نے الموجز میں نقل کیا ہے کہ آج بھی شیعی فقہ میں تقریباً 1100 ایسے مسائل ہیں جن پر شہرت کے علاوہ کوئی دلیل موجود نہیں۔

شیعی اصول فقہ سے ایسی مباحث نکال دینی چاہیئیں جن کا عملی ثمرہ نہیں یا جو دیگر علوم سے مربوط ہیں۔اسی طرح فقہ کو بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کی ازحد ضرورت ہے۔