1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. بابا جیونا/
  4. گدھے نامہ

گدھے نامہ

اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ گدھا ہمارے معاشرے کی اہم ضرورت ہے۔ بوجھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ گدھا پاکستان کے بڑے بڑے ہوٹلوں کی سلاد رائتے سے مزین ڈشوں میں گوشت کی کمی کو پورا کرتا بھی پایا گیا۔ بے شک گدھے کو یہ مقام دینا ایک جہالت اور ظلم ہے لیکن گدھے کو بطور گوشت استعمال کرنے والے ان جاہلوں کی نظر میں گدھے کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

آج کل پاکستان میں گدھے کابول بالا ہے محکمہ خوراک والے دن رات گدھے کو انسانی خوراک بننے سے بچانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ جب محکمہ خوراک نے گدھا خوری سے قوم کو کسی حد تک بچا لیا ہے تو اب سیاست دان گدھے کا ذکر جوش خطابت کاحصہ بناتے نظر آتے ہیں۔ کہیں پاکستان کے معتبر صحافی حضرات دوسروں کو گدھا کہہ کر گدھے کی توقیرمیں بیش بہا اضافہ فرماتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ قوم جسے ناچتے گاتے اچھل کود کرتے بڑے بڑے فلمی ستارے اور نصیبو لعل کے سبق آموز گانوں پہ مچلتی حسینائیں گھروں سے نہیں نکال سکیں اس پوری قوم نے ہی گدھا دیکھنے کے لیے سینماؤں کا رخ کر لیا ہے۔ ہے نہ مزے کی بات؟ چلیں گدھے کے دَم سے ہی سہی سینماؤں کی رونق کسی طور بحال تو ہوئی۔ ویسے گدھا اتنی فضول شے بھی نہیں۔ آج کے پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ دور میں گدھے سے بغض مطلب شہرت سے بیر۔ جس طرح سیاست دان اہل منصب فلم میکر صحافی اور بھانڈ گدھے کا ذکر کرتے ہیں مجھے لگتا ہے موجودہ دور میں شہرت کا حصول محض گدھے کی مہربانی سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ میں نے تو ایک مارننگ شو میں ایک محترمہ خاتون ڈاکٹر کو یہ تک کہتے سنا تھا کہ جو بچے کسی وجہ سے ماں کے دودھ سے محروم رہ جاتے ہیں ان کی صحت کے لیے گدھی کا دودھ ذود ہضم اور ہلکا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متوازن غذا ہے۔ ویسے اگر ہم چند سال پیچھے نظر دوڑائیں تو پاکستان کی مشہور و معروف شخصیت اور اُس وقت بننے والی ہر فلم کی ضرورت سمجھے جانے والے مرحوم اداکار رنگیلا صاحب بھی شہرت کے لیے فلم گدھا اور انسان میں گدھے کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں حالاں کہ اس وقت شہرت رنگیلا صاحب کے گھر کی لونڈی تھی۔ خیر۔ ۔ ۔ ۔

کل ہم ایک دعوت میں مدعو تھے۔ ہم نہا کر بالوں میں تیل کنگھی کے بعد نئی پنٹ شرٹ پہن کر اپنی موٹر سائیکل پہ سوار ایسی سنگل سڑک پہ جا رہے تھے جس کے دائیں بائیں کچی مٹی تھی۔ ہمارے پاس سے ایک تیز رفتار کار والا کار کا ایک ٹائر سڑک سے نیچے اتار کر ہمیں کراس کرتا ہوا گزر گیا۔ بشمول ماء بدولت آس پاس کھڑے سب لوگ کسی قبرستان کے ایسے گورکن لگ رہے تھے جنھیں کار کے ٹائروں سے اٹھنے والی مٹی اور دھول کے بادلوں میں اپنا آپ بھی نظر نہ آرہا ہو۔ جو ابھی ابھی پاس سے گزرے کار والے کی غیرت کا جنازہ دفن کر کے الوداعی گالیاں دے رہے ہوں۔

بطور پولیس آفیسر ناکے پہ کھڑے اکثر ہم تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ چھوٹی عمر کے بچوں کو موٹر سائیکل یا گاڑیاں چلاتے دیکھ کر۔ بنا ڈرائیونگ لائسینس گاڑی چلانے والوں کو دیکھ کر۔ ٹریفک سگنلز توڑتے اوور سپیڈ کرتے اوور ٹیک کرتے گدھوں کو دیکھ کر ہم سے فیصلہ ہی نہیں ہونے پاتا کہ یہ لوگ گدھے ہیں یا گدھے کے بچے۔ بہر حال ایسے لوگوں کا گدھے سے دور نیڑے کا کوئی نہ کوئی رشتہ ضرور ہوتا ہے۔

آپ اپنی زندگی میں گاۓ بھینس بھیڑ بکریوں کے متعدد بار ریوڑ دیکھ چکے ہوں گے۔ کیا کبھی آپ نے انسانی آبادیوں میں گدھوں کے غول یا ریوڑ بھی دیکھے ہیں؟ یقیناً آپ کہیں گے نہیں۔ عام چھٹی کے دن ہوں عید، شب برات، چاند رات، یوم آزادی اور دیگر قومی مذہبی تہواروں پہ بڑے شہروں کے بیچوں بیچ رواں دواں ٹریفک کے مخالف سمت سے آتے ون ویلروں کے غول اور گروپس جن کے موٹر سائیکلوں کے سلنسرز کی بانسریاں بھی نکلی ہوئی ہوتی ہیں جو بے شمار حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر مجھے تو بالکل ایساہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ گدھے ہیں یا گدھوں کے بچے۔

متعدد بار میں نے ایمبولینسز کو ٹریفک کی بھیڑ میں گوں گوں کرتے دیکھا ہے مجال ہے کسی کے کان پہ جوں بھی رینگے۔

ہر انسان دوسرے انسان سے آگے نکل جانے کی کوشش میں جتا ہوا ہے۔

پینشنرز کی لائن ہو۔ نادرا دفتر کے باہر شناختی کارڈ بنوانے والوں کی قطار ہو۔ سرکاری ہسپتال میں علاج معالجے کے لیے پرچی بنوانے والوں کی قطار ہو۔ بے نظیر انکم سپورٹ کی مد میں امداد وصول کرنے والوں کی قطار ہو۔ یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لگی قطار ہو یا ریلوے اسٹیشن پہ ٹکٹ لینے والوں کی قطار۔ ان تمام قطاروں کو توڑ کر آگے آجانے والے اور پھر ان قطاروں کی خلاف ورزی کر کے آنے والوں کا کام کر دینے والے دھکم پیل کرنے والوں نظم و ضبط کی دہجیاں اڑادینے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے والےتمام لوگ گدھا گر ہی تو ہوتے ہیں۔

اچھا کچھ گدھے بھی بڑے جاہل ہوتے ہیں مثال کے طور پہ سرکاری دفاتر میں رشوت خور گدھے۔ سرکاری خزانوں کو لوٹنے والے گدھے۔ سرکاری زمینوں پہ ناجائز قابض گدھے۔ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرنے والے گدھے۔ مریضوں کے گردے نکال کر بیچنے والے گدھے۔ عام ڈلیوری کیس کا بھی آپریشن کر دینے والے گدھے۔ شراب کو زیتون کا تیل یا شہد بنا دینے والے گدھے۔ بجلی چوری کرنے والے گدھے۔ اختیارات سے تجاوز یا اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے گدھے۔ اب ان تمام گدھوں کو جاہل اس لیے کہا گیا ہے کہ ساری زندگی حرام کا بوجھ ڈھوتے رہتے ہیں اور پھر ایک دن مر جاتے ہیں۔ ان کا اکٹھا کیا ہوا جہنم کا ایندھن پھر دوسروں کی عیاشی کا سامان بن جاتا ہے پھر وہ کالا دھن دورسرے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے گدھوں کا اکٹھا کیا ہوا لوٹ کا مال کھانے والے ان گدھوں کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے بھی نہیں جاتے۔

بہرحال یہ بہت سارے گدھوں کی ہی مہربانی ہے کہ ملک میں بجلی پانی گیس پٹرول ڈیزل اشیاۓ خورد و نوش کا بدترین بحران ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید خطرناک حد تک بڑھ جاۓ گا اور ان گدھوں کے کیے کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم کو بھگتنا ہوگا۔

بابا جیونا

بابا جیونا  جن کا اصل نام نوید حسین ہے ایک سرکاری ملازم اور ایک بہترین لکھاری ہیں۔