1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. فلاح کیا ہے؟

فلاح کیا ہے؟

انسان کی فلاح کس بات سے جڑی ہوئی ہے؟ اگر میں یہ سوال آپ کے سامنے رکھوں تو آپ میں سے ہر کوئی اپنا اپنا جواب پیش کرے گا:کوئی کہے گا تعلیم، کوئی کہے گا روزگار۔

مثلاً، بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ معاشی حالت انسان کی جیسے بہتر ہوتی ہے وہ ایک اچھا انسان بنتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اعلی تعلیم۔۔ اور پھر مثالیں پیش کی جاتی ہیں کہ "دیکھیں دوسری اقوام جوں جوں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتی گئیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں جھنڈے گاڑتی گئیں، ادھر بہتری آتی گئی"۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ معاشی استحکام اور اچھی تعلیم دونوں کا چولی دامن والا ساتھ ہے۔

اب آپ کچھ بھی کہیں، ایک بات تو واضح ہوچکی ہے، اور اس بات پر ہر کوئی متفق ہے، کہ آج تقریباً ہر ملک اور ہر لادینی نظریہ اس بات پر قائم ہے کہ جتنی اچھی تعلیم اور جتنا اچھا روزگار لوگوں کو دیا جائے گا، جس قدر معاشی استحکام ہوگا، اس قدر بھلائی ہوگی۔ لیکن اگر حقائق کو سامنے رکھیں تو ہمیں نظر آئے گا دولت کا یا اچھی تعلیم کا ایک انسان کا اچھا بننے سے کوئی تعلق نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کئی رئیس لوگ۔۔ جب انہیں کوئی عہدا دیا جاتا ہے۔۔ اور ہمارے اکثر سیاستدان ایسے ہی ہیں۔ جو اپنے علاقے میں کئی زمینیں رکھتے ہیں، ان کے درجنوں پیٹرول پمپز ہیں۔۔ جب کوئی عہدا انہیں ملتا ہے تووہ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اقربا پروری، رشوت۔۔ ان ساری چیزوں سے وہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

اسی طرح ہمیں بہت سے تعلیم یافتہ، بہت زیادہ پڑھے لکھے، حتی کہ دوسرے ملکوں سے بڑی بڑی سند لے کر آنے والے ڈاکٹرز اور سرجنز ملتے ہیں جو اپنی پیشے کے ساتھ ایمانداری نہیں کرتے۔ غلط دوائیں دیتے ہیں یا مریض کو اس لیے غلط نسخہ دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ بار بار آئے ہمارے پاس۔ کئی بار ایسی کوتاہی یا غفلت کے مرتکب ہوجاتے ہیں جس سے ایک انسان کی پوری زندگی متاثر ہوجاتی ہے۔

نہ تعلیم اور نہ روزگار ایک انسان کو اچھا انسان بناتا ہے۔

اس کے برعکس میں نے ایسے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو نہ تو اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں نہ ان کے پاس زیادہ دولت ہوتی ہے، لیکن ایمانداری اور اچھائی اور وہ ہر چیز جو آپ چاہیں گے وہ ان کے اند ر موجود ہوتی ہے۔

مثلاً۔۔ میں اپنا ایک واقع پیش کرنا چاہوں گا۔۔ بی اے کا فارم جمع کرا رہا تھا، پتہ چلا ایک سند ہے جس کی نقل کرانا میں بھول گیا۔ فوٹو کاپی والے کے پاس گیا، وہاں جاکر جب پیسے دینے کی بات آئی تو مجھے پتہ چلا کہ میرا بٹوا غائب ہے۔ میں ڈر گیا۔ میں واپس گیا اور مجھے لگا کہ جہاں میں فارم جمع کرا رہا تھا ادھر کلرک کے پاس میرا بٹوا رہ گیا ہوگا۔ اور یہ بات سچ نکلی۔ کلرک نے ایمانداری کا مظاہرہ کیا۔ (وہ چاہتا تو میرا بٹوا رکھ لیتا، کوئی کیمرہ وغیرہ نہیں لگی ہوئی تھی کہ وہ پکڑا جاتا۔)اس نے پوچھا میرا نام کیا ہے؟ جواب دینے پر اس نے میرا بٹوا کھولا اس میں سے میرا شناختی کارڈ نکالا اور میری تصویر اور نام کی جانچ پڑتال کی اور پھر میرا بٹوا مجھے واپس کردیا۔ ایک روپیہ اس میں سے غائب نہیں تھا۔

جب بات کی جارہی ہوتی ہے ہمارے ٹاک شوز میں کہ "جی شرح خواندگی کو بڑھایا جائے " یا "ایک بندے کی اوسطاً کمائی پر توجہ دی جائے، اس کو بڑھایا جائے" تو میں کہتا ہوں:"یار!یہ باتیں بے شک اہمیت کی حامل ہیں، لیکن اتنی زیادہ نہیں"۔ ہمیں تو اس بات پر بحث کرنی چاہیے کہ بنیادی اچھائیاں ہمارے معاشرے میں ہیں کہ نہیں۔ جن کے لیے کوئی بڑی ڈگری نہیں چاہیے، بہت زیادہ دولت نہیں چاہیے۔

یہی وجہ ہے کہ بہت بڑے بڑے رئیس اور جاگیردار معاشی اور اخلاقی بدعنوانی کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ اپنے پچھلے مضمون میں بہت سے پڑھے لکھے اور کامیاب لوگوں کا ذکر کر چکا ہوں جنہوں نے بداخلاقی کی ہر حد پھلانگی، ان کی دولت اور تعلیم معاشرے کے لیے تباہی بنی۔ اور کئی ایسے لوگ جن کو تین وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود۔۔ مجال ہے کہ اگر آپ ان کو امانت دے کر جائیں تو وہ اس میں سے تھوڑی بھی، چاہے رتی برابر، کوئی کمی کوتاہی کریں۔

آخر میں۔۔ میں شہید حکیم محمد سعید۔۔ ہمدرد پاکستان کے بانی؛حافظ، حکیم اور حاجی۔۔ اور جن کی خدمات کے بار ے میں، میں یہاں بات کرنے لگا تو ایک بڑی کتاب کے صفحے درکار ہونگے۔۔ ان کے ایک انٹرویو کا اقتباس میں یہاں پڑھنا چاہتا ہوں۔ آپ غور سے سنیے گایا پڑھیے گا کہ حکیم محمد سعید نے کیا کہا۔ حکیم محمد سعید نے کہا:

"جب میرے محترم میاں محمد نواز شریف برسر اقتدار آئے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا، جناب حکیم صاب کیا کرنا چاہیے؟ میں نے جواب دیا:کردارسازی!وہ خاموش ہوگئے۔ میرا خیا ل تھا کہ وہ بات تو سمجھ گئے ہیں۔ مگر ان کی توجہ اس طرف نہیں ہوسکی۔ "(ص227، روبرو:شہید حکیم محمد سعید کے انٹرویوز، ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان، 2000ء)

آپ خود اندازہ لگائیں کہ حکمران طبقہ یا ہمارے دانشور یا وہ لوگ جو ہمار ے معاشرے پر مثبت یا منفی اثر اپنی صوابدید سے ڈال سکتے ہیں، ان کی ترجیحات کس قدر کردار سازی پر ہیں؟

ہم معیشت اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود ہم معیشت کے میدان میں بھی پیچھے ہیں اور تعلیم کے میدان میں بھی۔ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، عالمی اداروں کے پاس جانا پڑتا ہے، دوسرے ملکوں سے بھیک مانگنی پڑتی ہے تاکہ ہمارا ملک چل سکے۔ اور تعلیم کے میدان کی تو بات ہی نہ کیجیے۔

لہذا جب تک کردار سازی پر غور نہیں کیا جائے گا، ہم آئی ایم ایف کے محتاج رہیں گے، دوسری عالمی بینکوں کے محتاج رہیں گے۔

آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں ہر کوئی ڈاکٹر اور انجینیر بننا چاہتا ہے، لیکن ہماری صحت اور انفراسٹرکچر کا کیا حال ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ سب ڈاکٹر انجینیر بننا چاہتے ہیں لیکن دونوں میدانوں میں یہاں تباہی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

بات توجہ کی حامل ہے۔ مجھے امید ہے آپ توجہ دیں گے۔ مجھے فی الحال اجازت دیجیے۔ اگر اللہ نے زندگی دی تو آپ سےیوں ملاقات، بذریعہ الفاظ، ہوتی رہے گی۔ انشاءاللہ۔ اللہ حافظ!

باشام باچانی

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔