1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. باشام باچانی/
  4. فرعون اور چیونٹیاں

فرعون اور چیونٹیاں

ایک چھوٹی لڑکی اپنی دادی سے پوچھتی ہے۔ "دادی جان!اللہ کی راہ میں کیسے خرچ کیا جائے۔ ہمیں تو اللہ دکھائی نہیں دیتے، نہ ہی ہم ان سے مل سکتے ہیں۔ "دادی نے اپنی پیاری پوتی کو جواب دیا۔ "میری پیاری بچی!اللہ تو ہر جگہ موجود ہے، بے شک وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا، لیکن ہے ہر جگہ۔ "چھوٹی لڑکی نے جب یہ سنا تو اس نے ہدف بنایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے گی۔ اس نے اپنی جیب خرچ میں سے کوئی میٹھی چیز خریدی، اور پھر اس میٹھی چیز کو آدھا کھایا اور باقی آدھا بچا لیا۔ وہ اپنے گھر کے اسٹور روم میں گئی اور پھر آدھی چیززمین پر گرادی۔ کیونکہ اسے اس کی دادی نے بتایا تھا کہ اللہ تو ہر جگہ موجود ہے، لہذا اس نے سوچا اللہ یہاں بھی ضرورموجود ہوگا، اور اس کی یہ چیز قبول کرلے گا۔ ہوا یوں کہ بچی جب دوسرےدن اسٹور روم گئی تو دیکھا کہ زمین تو خالی ہے۔ اس نے جو چیز پھینکی وہ تو وہاں موجود نہیں۔ اس کا ایمان پختہ ہوگیا کہ اللہ نے اس کی چیز قبول کرلی۔ وہ اس عمل کو مسلسل دہراتی رہی۔ حتی کہ ایک ایسا دن آیا جب اس نے دیکھا کہ جو چیز اس نے پچھلے روز پھینکی وہ غائب نہیں ہوئی۔ وہ روتی ہوئی اپنی دادی کے پاس آئی۔ "دادی جان!اللہ تعالی مجھ سے ناراض ہیں۔ "دادی حیران ہوئی، پوچھنے لگی کیوں؟پھر بچی نے یہ ساری بات بتائی کہ وہ روز کچھ نہ کچھ ضرور اسٹور روم میں پھینکتی تھی اور اللہ اسے قبول کرلیتا تھا، لیکن آج اس نے دیکھا کہ اسٹور روم میں وہ چیز اپنی جگہ موجود ہے۔ بچی کی دادی کو پھر سمجھ آیا۔ اس نے اپنی پوتی سے کہا۔ "بیٹی!وہ تو چیونٹیاں صاف کرجاتی ہونگی جو تم پھینکتی ہو۔ اللہ کی راہ میں اس طرح خرچ نہیں کیا جاتا۔ آپ اپنی دولت کو کسی انسان کی بھلائی کے لیے خرچ کرتے ہیں اسے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں اپنا مال قربان کرنا۔ "خیر وہ چھوٹی بچی تو اب بڑی ہوگئی ہے، اور آج بھی خوش دلی کے ساتھ فی سبیل اللہ خرچ کرتی ہے۔ (الحمد اللہ!وہ لڑکی راقم کی خاتون خانہ ہے۔ )یہ کہانی سنانے کا تو صرف ایک مقصد ہے کہ ہم جانیں کہ اللہ ہر جگہ حقیقتاً موجود ہے۔ بے شک چیونٹیاں انسانیت کے دائرے میں شمار نہیں ہوتیں، لیکن ہیں تو وہ بھی اللہ کی مخلوق—انہیں بھی زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھیں کس طرح ایک چھوٹی بچی کی نادانی ان کے لیے بھلائی ثابت ہوئی۔
اب ایک دوسری کہانی بھی ملاحظہ کیجیے۔
"کیا ہم نے اپنے پاس بچپن میں تیری پرورش نہیں کی؟"فرعون نے حضرت موسیؑ سے سوال کیا—جب حضرت موسیؑ ان کے پاس اللہ کا پیغام لے کر حاضر ہوئے۔ "اور تو ہمارے درمیان اپنی عمر کے کئی برس نہیں رہا؟"فرعون نے پھر حضرت موسی ؑ کے اوپر الزام لگایا۔ "اور تو ناشکروں میں سے ہے۔ "(سورۃ الشعرا، آیات18 تا 19)فرعون نے ایسا کیوں کہا؟آپ کو تو معلوم ہوگا کہ حضرت موسی ؑ کی پیدائش سے پہلے فرعون کو ایک خواب آیا، معتبرین نے فرعون کو بتایا کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے ایک بیٹا جنم لے گا جواس کی سلطنت کو تبا ہ و برباد کردے گا۔ لہذا فرعون نے ایک چال چلی۔ اس نے اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ ہر پیدا ہونے والے اسرائیلی بچے کو مار دیا جائے۔ لیکن، "وہ چل رہے تھے اپنی چالیں، اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا۔ اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ "(8:30) فرعون کی یہ ترکیب کامیاب نہ ہو پائی۔ کیوں؟قرآن پاک میں اس سوال کا جواب موجود ہے: "وہی (اللہ)تو ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، پھر جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو وہ بس اسے کہتا ہے:ہوجا، تو وہ ہوجاتا ہے۔ "(40:68) لیکن جب فرعون نے ایسی پالیسی اپنائی تو حضرت موسیؑ کس طرح پیدا ہوئے؟ہر پیدا ہونے والے اسرائیلی بچے کو قتل کیا جاتا تھا تو حضرت موسی ؑ کس طرح بچ گئے؟اور بچ بھی گئے تو ان کی پرورش کیسے ہوئی؟مجھے کیا معلوم۔ لہذا، آئیے، قرآن پاک سے رہنمائی حاصل کریں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: "اور ہم نے موسی کی ماں کو الہام کیا کہ تو اسے دودھ پلا، پھر جب تو اس کے بارے میں ڈرے تو اسے دریا میں ڈال دینا۔ ۔ ۔ چنانچہ فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے)اٹھا لیا۔ " (سورۃ القصص، آیات7 تا 8) بعد میں ہوا یوں کہ فرعون کی بیوی نے حضرت موسی ؑ کو گود لے لیا۔ فرعون کو یہ معلوم بھی نہ ہوا کہ وہ جس بچے کے قتل کے لیے کوشا ں ہے وہی بچہ اس کے گھر میں نشو و نما پا رہا ہے۔ دیکھیں اللہ تعالی نے کس طرح فرعون کے ذریعے حضرت موسی ؑ کوبچا لیا—جی ہاں!وہی فرعون جو حضرت موسیؑ کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ وہی فرعون جو بنی اسرائیل پر ظلم و زیادتی کرتا تھا۔ اللہ تعالی جب اپنے بندے کی مدد کرنا چاہتا ہے تب وہ اس کے دشمن کو بھی اپنی نعمت کا وسیلہ بنا دیتا ہے۔
تو دوستو!پہلی کہانی میں ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے ایک نادان —لیکن صاف دل—لڑکی کے ذریعے اپنی مخلوق کی کفالت کی۔ آخر چیونٹیاں بھی اللہ کی تسبیح کرتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3225)جب انسان کی نیت صاف ہو تو وہ نادانی میں بھی کوئی نہ کوئی اچھائی کرجاتا ہے۔ لیکن دوسری کہانی میں ہم نے دیکھا کہ فرعون طاقتور اور دولت مند ہونے کے باوجود ناکام رہا۔ کیوں؟کیونکہ وہ ایک مغرور انسان تھا؛ وہ بنی اسرائیل —بالخصوص حضرت موسیؑ—کو حقارت بھری نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ اپنی قوم سے کہا کرتا تھا: "اے میری قوم!کیا میرے لیے مصر کی بادشاہی اور یہ نہریں نہیں جومیرے (محلات کے)نیچے بہتی ہیں؟۔ ۔ ۔ بلکہ میں تو اس (موسی)سے کہیں بہتر ہوں جو حقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا۔ "(سورۃ الزخرف، آیات51 تا 52) فرعون کے اس بیان سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کا انسان تھا۔ وہ حضرت موسی کو حقیر سمجھتا تھا کیونکہ اُن کی زبان میں لکنت تھی اور وہ اس لیے صحیح طرح نہیں بول پاتے تھے۔
کسی انسان کی خامیوں کو نمایاں کرنا، پھر اُن خامیوں کے ذریعے اس کا مذاق اڑانا ایک بری بات ہے۔ قرآن پاک سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رویہ فرعون کا تھا، ایک مسلم کانہیں۔ رسول پاکﷺنے فرمایا: "جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا، اللہ تعالی اس کا عیب فاش کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسے اس کے گھر میں بھی ذلیل کرے گا۔ " (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر2546)
آپ نے وہ مشہور حکایت تو سنی ہوگی جس میں ٹڈا چیونٹیوں کے پاس سردی کے موسم میں مدد کا طلب گار ہو کرآتا ہے، وہ بھیک مانگتا ہے کہ چیونٹیاں اس کی حالت پر رحم کھائیں، اور اسے کچھ کھانے کے لیے دیں۔ چیونٹیوں میں کیونکہ اتحاد اور نظم و ضبط پایا جاتا ہے، لہذا چیونٹیاں پہلے ہی سردی کی تیاری کرلیتی ہیں—وہ اس طرح کہ گرمی کے موسم میں انہیں جو ملے وہ ذخیرہ کرتی رہتی ہیں، اور وہ ذخیرہ انہیں سردی کے موسم میں بھوکا نہیں چھوڑتا، جب برف اور موسم کی شدت انہیں باہر جانے نہیں دیتیں۔ جب ٹڈا ان کے پاس آتا ہے، تو چیونٹیاں اس سے سوال کرتی ہیں۔ "تم نے گرمی کے موسم میں کیوں کچھ جمع نہیں کیا جو ابھی تمہارے کام آتا۔ "ٹڈا جواب دیتا ہے: "میرے پاس وقت نہیں تھا، کیونکہ موسیقی نے مجھے مصروف رکھا۔ "چیونٹیاں اس کی حالت پر ہنستی ہیں اور اسے طنزیہ کہتی ہیں: "اچھا !گرمی میں موسیقی، تو ایسا کرو اب سردی میں ناچو۔ " جو شخص سادگی اپناتا ہے، وہ چیونٹیوں کی طرح اس قابل ہوتا ہے کہ مشکل وقت کے لیے بچا سکے۔ اس کے برعکس فضول خرچ شخص ٹڈے کی طرح عیش و عشرت میں اپنے وقت، پیسے اور توانائی کوبرباد کردیتا ہے، اور پھر اس کے پاس مشکل وقت میں کچھ باقی نہیں رہتا۔ نتیجتاً، وہ جلد پیسے کمانے کے چکر میں غلط ذرائع سے پیسے کمانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے قرآن کے ذریعے ہمیں یہ ہدایت ملتی ہے: "اور اسراف سے اجتناب کرو، بیشک اللہ اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔ "(6:161) اور ایک دوسرے مقام پر قرآن پاک میں فرمایا گیاہے: "بےشک فضول خرچ لوگ شیاطین کے بھائی ہیں۔ " (17:27) فرعون کی تباہی کی ایک وجہ اسراف تھی۔ "اور بے شک وہ(فرعون)۔ ۔ ۔ اسراف کرنے والوں میں سے تھا۔ " (44:31)
آپ نے لوگوں سے یہ ضرور سنا ہوگا:آگے بڑھو، بڑے انسان بنو، نام کماؤ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں کہتا ہوں چیونٹیوں سے ہی کچھ سیکھ لو۔ بڑا آدمی تو فرعون بھی تھا، ہٹلر بھی، سٹالن بھی۔ ۔ ۔ بس اتنا کرلیں کہ کسی کو حقارت بھری نظروں سے نہ دیکھیں، اور جو اللہ نے دیا ہے اس پر شکر کریں اور تکبر سے اپنے آپ کو پاک رکھیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ اور ہاں!یاد رکھیں:سادگی میں ہی ہماری نجات پوشیدہ ہے۔ تو دوستو! غالباً اب آپ پڑھ پڑھ کر تھک گئےہونگے۔ لہذا اب میں اپنی قلم کو روک لیتا ہوں۔

باشام باچانی

باشم باچانی  ٹیچر ہیں اور 2012ء سےشعبہ تعلیم سے وابسطہ ہیں ۔ مطالعے کا بے حد شوق ہے اور لکھنے کا اس سے بھی زیادہ۔تاریخ، اسلامیات، اور مطالعہ پاکستان پسندیدہ مضامین ہیں۔ ناول کے مصنف اور کالمز تحریر کرتے ہیں۔